بلوچ راجی مُچی ۔ حکیم وڈیلہ

330

بلوچ راجی مُچی

تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ

گزشتہ دو دہاہیوں سے بلوچستان سے مسلسل بلوچ نسل کشی، انسانیت سوز بربریت، جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگیوں سمیت قومی وسائل کی لوٹ مار اور سیاسی جدوجہد پر قدغن کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کے دور سے شروع ہونے والی پانچویں بلوچ قومی جدوجہد کو جنرل مشرف نے “مٹھی بھر بلوچوں کی سازش” قرار دیکر کہا کہ “انہیں وہاں سے ہٹ کیا جائیگا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلیگا” جنرل مشرف نے پھر بلوچوں پر بمباری کی، بلوچوں کے بزرگ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کو انکے سینکڑوں ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا۔جس کا جواب بلوچوں نے اجتماعی قومی جدوجہد کی صورت میں دینے کا فیصلہ کیا، ایک ایسی جدوجہد جو بلوچوں کی مستقبل، کامیابی اور کامرانی کی ضامن ہو۔

جب جنرل مشرف کی حکومت کا تختہ پلٹا اور پاکستان میں خود کو جمہوریت کا چیمپین کہنے والی پی پی پی کی حکومت آئی تو بلوچستان میں ایک ایسا اندھا قانون پیش کیا گیا جسے شاید پاکستانی فوج، فیڈریشن، پی پی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور انکے پالتو سردار اور ڈیتھ سکواڈ کے نمائندگان بلوچ قومی جدوجہد، بلوچ قومی سوال اور بلوچ قومی مزاحمت کو ختم کرنے کا واحد حل سمجھتے تھے۔

یہ بدنام زمانہ قانون پھر “Kill and Dump Policy” کے نام سے مشہور ہوا، جس کے چلتے سیاسی کارکنان کو ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایاگیا۔ ان جبری گمشدہ افراد میں کثیر تعداد میں نوجوان، بچے، بزرگ، خواتین، سیاسی کارکنان، سماجی کارکنان، انسانی حقوق کے علمبردار، صحافی، آرٹسٹس، چرواہے، انجینئیرز، طلباء، اساتذہ، دانشوروں اور ڈاکٹروں سمیت زندگی کے ہر ایک شعبے سے تعلق رکھنے لوگ تھے، جن میں سے بیشتر کو بعد ازاں ماورائے عدالت قتل کرکے سڑک کے کناروں، ویرانوں، ندیوں، پہاڑوں میں پھینک دیا گیا یا پھر اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008 کی دورحکومت سے لیکر ابتک پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور اب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی وفاق میں مشترکہ حکومت ہے، جبکہ بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر پی پی پی کی حکومت ہے۔ 2008 سے لیکر 2024 تک بلوچستان میں ایک ایسی نسل تیار ہوچکی ہے جنہوں نے اپنے آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو جبری گمشدگی کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔ جنہوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے شبینہ روز جدوجہد کی ہے، انصاف کے تمام دروازوں پر دستک دی، انہوں نے عدالتوں میں پیش ہوکر انصاف کے حصول کے بجائے اپنی اور اپنے لاپتہ پیاروں کی تذلیل برداشت کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ 2008 سے لیکر 2024 کے دوران بلوچوں کی ایک ایسی نسل کی پرورش ہوئی ہے جنہوں نے اپنے لخت جگروں کی مسخ شدہ لعشوں کو اپنے آنکھوں کے سامنے ایسی حالت میں بھی دیکھا ہے جنکی شناخت کرنا ناممکن ہو۔

آج بلوچوں کی وہ نسل ڈاکٹر ماہرنگ کی صورت میں، سمی دین کی صورت میں ڈاکٹر صبیحہ کی صورت میں بیبرگ بلوچ کی صورت میں، حسیبہ قمبرانی اور بیبو کی صورت میں، گل زادی اور سعدیہ بلوچ کی صورت میں بلوچ قومی کاروان کو نہ صرف لیڈ کررہی ہے بلکہ بلوچ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، برزگوں اور پوری قوم کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاکر ایک ایسی تحریک چلا رہے ہیں، جہاں ریاستی بندوق، ریاستی دھمکی، ریاستی جبر، جبری گمشدگی، مسخ شدہ لعشیں، سی ٹی ڈی کے ہاتھوں فیک انکاؤنٹر، نوکری چھینے جانے کے خوف سمیت تمام تر ذاتی خواہشات اور خوف بلوچ سماج سے پرے ہوچکے ہیں۔ اور بلوچ قوم یک مشت اور یکجاہ ہوکر بس ایک ہی نعرہ لگارہے ہیں کہ مزاحمت زندگی ہے۔

مزاحمت جو بلوچ قومی بقاء کا ضامن ہے، مزاحمت جو بلوچوں کو ہمیشہ زندہ قوموں کی صفحوں میں جگہ دینے کا سبب بنے گی۔ مزاحمت جو بلوچ قومی تاریخی شناخت کو بحال کرتے ہوئے بلوچ سرزمین پر حاکمیت کا ضامن ہوگا۔ اس مزاحمت کی کامیابی سے خوفزدہ ریاست کا بلوچ راجی مُچی کے حوالے سے جاری غیر انسانی کردار ریاست کی شکست کو واضح کرتا ہے۔

بلوچ راجی مُچی جس کا مقصد بلوچوں کو یکجاہ کرنا انہیں اپنی بات بتانا، اپنا درد بیان کرنا، اپنے غم کو بانٹنا اور انکے درد اور غم کو سننا اور مشترکہ طور پر اس درد، غم، ظلم، جبر بربریت کے خاتمے کی خاطر پُر امن جدوجہد کا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ ریاست اس مُچی سے اس قدر خوفزدہ ہیکہ گزشتہ کئی دنوں سے بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز، ایف سی اور لوکل ڈیتھ سکواڈز کے کارندوں نے سڑکوں کو بند کررکھا ہے۔ پُر امن لوگوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ انہیں دھمکایا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جارہی ہے اور ساتھ ہی بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سروس معطل کرکے لوگوں کو زمینی حقائق اور حالات سے بے خبر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ریاستی جبر کا شکار ہونے والے بلوچ نوجوانوں میں سے کچھ شہید ہوچکے ہیں۔ جبکہ بہت سے نوجوانوں کی حالت انتہائی سیریس ہے۔

ریاست کا بلوچ راجی مُچی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حمایتیوں کے کاروان پر حملوں، انکے خلاف شب ؤ روز زہر افشانی کرنے، جھوٹے پروپیگنڈوں کو سہارہ لینا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ بلوچ راجی مُچی اپنے انعقاد سے قبل ہی ایک تاریخی سنگ میل ثابت ہوچکا ہے۔

گوادر جہاں دنیا بھر کی طاقتوں نے اپنی نظریں جمائی رکھی ہیں، جس کے حوالے سے پاکستان اور چین یہ پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے گوادر سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہے۔ جہاں بلین ڈالرز کے پراجیکٹ کی آمد سے لوگوں کی زندگیاں نہ صرف آسان ہوچکی ہیں، بلکہ وہاں شہد اور دودھ کی نہریں بہنے لگی ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی اس جھوٹ کا بانڈا پھوڑنے میں کامیاب ہوچکی ہے کہ پاکستان اور چینی پراجیکٹس بلوچ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے انکا ذریعہ معاش جو تاریخی طور پر گوادر کے عوام کا واحد زورگار کا ذریعہ رہا ہے اس کو ختم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ماہیگیروں کیخلاف سخت قوانین پاس کرکے، عام عوام کو بلوچ ساحل سے دور رکھکر انہیں فاقہ کشی پر مجبور کرنے والی سی پیک کی حقائق دنیا پر واضح کرنے والی بلوچ راجی مُچی کیخلاف ریاستی کریک ڈاؤن ریاستی شکست کو مزید واضح کررہی ہے۔

ایسے حالات میں جب ریاست کی پوری طاقت بلوچ راجی مُچی سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مسلسل جدوجہد کے خاتمے پر مرکوز ہو، ایسے حالات میں تمام بلوچ قوم کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے جدوجہد کا حصہ بنکر انکی آواز میں آواز ملا کر مشترکہ طور پر بلوچ نسل کش ریاستی پالیسیوں، اور بربریت کے کیخلاف جدوجہد میں کردار ادا کرتے ہوئے ظلم ؤ جبر کی اس تاریک رات کو شکست دیتے ہوئے کامیابی کی جانب گامزن ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔