28 جون کا دن
تحریر: کوہی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے 28 جون 2009 کے دن صبح سویرے ہمارے گاؤں کے لوگ شور مچا رہے تھے، میں نے اٹھ کے دیکھا کچھ لوگ ہمارے گھر کے سامنے کھڑے ہیں کچھ میرے رشتداروں کے۔ مچھردانی سے اٹھ کر میں تیزی سے بھاگ اٹھا اپنے بڑوں کے پاس گیا، تو وہاں یہ بات چل رہی تھی” ڈاکٹر دین محمد کو اغوا کر لیا گیا ہے” اور ابھی ہم سب اورناچ کے لوگ جارہے ہیں اورناچ کراس مین آر سی ڈی شاہراہ کو بند کرنے کے لئے۔ میں اس وقت نو سال کا تھا میں بھی تیار ہوا اورناچ کراس جانے کے لئے لیکن مجھے کہا گیا کہ آپ ابھی تک بچے ہو یہیں پر رہو ہم بڑے جاتے ہیں۔ تو میں گھر ٹھہر گیا، ہمارے محلے کے مرد حضرات سارے کہن ٹاؤن/ بازار چلے گئے۔ اس لئے کہ وہاں سے سب اورناچ والے مل کر کراس جائنگے۔
ہمارے محلے میں اس بات کا واویلہ مچ گیا تھا ہر کسی کو دیکھتے تو یہ بات کررہےتھے” ڈاکٹر دین محمد کو اسپتال سے اغوا کر لیا گیا ہے” یہ بات اورناچ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا تھا۔ کیونکہ اورناچ کی تاریخ میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ پہلا بندا تھا جس کو اٹھالیا گیا تھا، اس سے پہلے اورناچ میں کسی کو نہیں اٹھایا گیا تھا۔ اور اورناچ کے لوگوں کے اندر شعور بیدار کرنے میں ڈاکٹر دین محمد صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
جب لوگ بازار گئے تو لوگوں نے صبح 8 یا 9 بجے بازار میں “ایک سرف گاڑی کو دیکھا تھا” لوگوں نے گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن گاڑی نہیں رکا تھا اس لیے عوام نے “سرف گاڑی” پر خوب سنگباری کی، گاڑی کے کچھ شیشے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے تھے لیکن پھر بھی گاڑی نہیں رکا تھا۔ کچھ لوگوں نے اپنے موٹر سائیکلوں پر گاڑی کا تعاقب کیا تھا لیکن گاڑی کے استاد نے ہوشیاری کا ناخن لیتے ہوئے پہاڑی راہوں کا اختیار کیا تھا۔ جس کے بنا موٹر سائیکل والوں کو واپس ہونا پڑا تھا۔
پھر عوام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جب ڈاکٹر صاحب کو رات کو اسپتال سے اٹھا لیا گیا تھا تو اغواء کار رات کو اورناچ میں کسی ڈیتھ اسکواڈ کے گھر گئے تھے، صبح 8 یا 9 بجے نکل گئے تھے۔ لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ شاید اغواء کاروں کے علم میں یہ بھی نہیں تھا کہ یہاں کے لوگ ڈاکٹر دین محمد کے لئے اتنی زیادہ مزاحمت کریں گے۔
عوام نے یہ سارا ماجرہ اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھا تھا تو اس لیے کراس جانے کا ارادہ کینسل کیا گیا تھا۔ کیونکہ سرف گاڑی نے کوئی اور راستہ اپنا لیا تھا۔ لوگ سارا دن بازار میں غصے میں تھے رہے لیکن چیڑیا دانہ چک چکا تھا۔ لوگوں کے پاس گھر جانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ چار بجے کے بعد ہر کوئی مایوسی لیکر اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے، سب کو پتہ تھا کہ ہم نے ایک ہستی گنوا دیا ہے۔ اور ابھی تک ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم سمی اور مہلب کے “وام دار” قرضدار ہیں جو ہم کبھی ادا نہیں کرسکتے ہیں۔
” بلوچ نسل کشی کے خلاف لانگ مارچ میں” خضدار میں شہید عبد الرزاق چوک پر میں کچھ قدموں کے فاصلے پر سمی دین کے آمنے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میں نے شرم محسوس کیا کہ میں بھی سمی کے “وام دار” ہوں۔
میں اپنے عمر کے لڑکوں کے ساتھ پورا اپنے محلے کا چکر لگایا لیکن کوئی خبر نہیں مل سکا۔ تقریباً 5 بجے کے قریب ہمارے محلے کے مرد حضرات اپنے اپنے گھروں میں مایوسی کے ساتھ آرہے تھے۔ تو میں اس وقت کچھ دوستوں کے ساتھ محلے کے پرائمری سکول کے سامنے بیتاب کھڑا تھا، کیونکہ ” چار سے پانچ بار” میں نے بھی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تھا تو اس لئے میں بیتاب تھا۔ پرائمری سکول کے سامنے جب ہم کھڑے تھے تو ہمارے رشتے دار آگئے بے بسی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد کچھ لوگ اور آگئے سب نے سارے دن کے کہانیاں بتائے “ایسا ہوگیا ایسا ہوگیا پھر ایسا ہوگیا” ہم صرف ان کے باتوں کو سنتے گئے۔ کسی نے کہا میں نے گاڑی کو لاٹھی سے مارا تھا تو کسی نے کہا پتھر سے۔
ہمارے محلے کے زیادہ تر خواتین حضرات بھی مردوں کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ کیا حال لائینگے، لیکن سب کو یہی ایک خبر مل گئی وہ ڈاکٹر دین محمد کو لے گئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔