بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ قبضہ گیریت کے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قابض طاقتوں نے ترقی کے نام پر مقبوضہ علاقوں میں ہمیشہ اپنی آبادکاری اور وسائل کے لوٹ مار کے ذرائع کے راستے کو محفوظ بنایا ہوا ہے۔ ایک طرف جہاں پاکسانی فوج اور ایجنسیاں چین کے پیسے کا استعمال کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں، قتل و غارت گری میں ملوث ہیں جہاں ریاست بلوچ قوم کے خلاف یلغار پر اتر آئی ہے جبکہ دوسری جانب پنجابی اور چینی آبادکاری کیلئے ائیرپورٹ بنا چکا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ گوادر میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا قیام چین اور پاکستان کی ان دیرانیہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو بلوچستان میں بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرکے چینی اور پنجابی آباد کرنا چاہتے ہیں جس کے خلاف بلوچ قوم کو ہر طرح کی مزاحمت کا راستہ اپنانا چاہیے۔ پنجابی ریاست بلوچستان سے بلوچ آبادی کا خاتمہ کرتے ہوئے پنجابی سیٹلرز اور چینیوں کو آباد کرنا چاہتی ہے جو بلوچ کے مرگ و زیست کا سوال ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہی گوادر جہاں مقامی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے وہیں چین اور پاکستان نے ملکر ملین ڈالرز لگا کر ائرپورٹ بنایا ہوا ہے اگر واقعی میں انہیں بلوچ قوم کا غم ہوتا تو آئے دن گوادر میں بلوچ ماؤں اور بہنوں کی چادر و چاردیواری کی پامالی نہ کرتے اور لوگوں سے ان کا روزگار جو سمندری حدود میں ماہی گیری پر مشعمل ہے اس پر ڈاکہ ڈالتے۔ چین اور پاکستان اصل میں بلوچ جیغرافیہ کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر اس پر مکمل کنٹرول کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور بلوچ زمین اور بلخصوص گوادر کو اپنا فوجی اڈہ بنانا چاہتے ہیں۔ چین جو دنیا میں ایک طرف سرمایہ کاری اور کیپٹلزم کے خلاف ابھرتے طاقت کے طور پر خود کو سامنے لانا چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب یورپین قبضے کے موڈل کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان جیسے مقبوضہ علاقوں میں اپنا فوجی کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چین اگر تائیوان کے مسئلے کو لیکر دنیا سے لڑنے کا عزم رکھتی ہے تو چینی قیادت کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ بلوچ قوم اپنے قومی آزادی کی حفاظت کیلئے ہر حد تک مزاحمت کا راستہ اپنائیں گے۔
مزید کہا ہے کہ بلوچ قوم کو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے خلاف منظم جدوجہد کا راستہ اپنانا چاہیے، یہ ائیرپورٹ گوادر میں ان کی آبادکاری کا گیٹ وے بننا جا رہا ہے۔ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا بنیادی مقصد چین سے ڈائریکٹ گوادر کو ہوائی راستہ دینا ہے جو ہر صورت میں خطرناک ہے اور اس کے خلاف بلوچ قوم کو آگاہ رہتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اپنانا چاہیے۔ آج جہاں گوادر میں مشکل سے سو چینیوں کی موجودگی کی وجہ سے تمام گوادر فوجی محاصرے میں ہے تو سوچا جائے کہ جب ہزاروں چینی گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں آئیں گے تو فوجی قبضے کی حالت کیا ہوگی۔
بیان کے آخر میں بلوچ عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ ریاست اس وقت شدید جنگی اور قبضہ گیریت کے سوچ پر مبنی پالیسی پر گامزن ہے اور اس کا بنیادی مقصد بلوچستان سے بلوچ آبادی کا خاتمہ کرکے یہاں پنجابی اور چینی مستقل قبضہ قائم کرنا ہے۔ اگر بلوچ عوام نے چینی مزموم عزائم کا مقابلہ نہیں کیا اور اسے بلوچستان میں پاؤں جمانے کا موقع دیا گیا تو چینی سامراجیت بلوچستان میں مہینوں میں وہ تبائی بلوچستان میں لا سکتی ہے جو پنجابی قبضہ گیر گزشتہ ستر سالوں سے لانے میں ناکام ہوئے۔