ہم کسی بھی صورت اپنی سرزمین سے دستبردار نہیں ہوں گے – فدائی سمعیہ قلندرانی کا پیغام شائع

366

دوسری بلوچ خاتون فدائی سمعیہ بلوچ کا پیغام بلوچ لبریشن آرمی کے آفیشل میڈیا چینل ‘ہکّل’ پر شائع ہوگئی ہے۔ یہ آڈیو پیغام ان کی پہلی برسی کے موقع شائع کی گئی ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی – مجید برگیڈ کی خاتون فدائی سمعیہ بلوچ نے گذشتہ سال آج کے دن بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستانی خفیہ اداروں کے اعلیٰ آفیسران کی گاڑی کو حملے میں نشانہ بنایا تھا۔

سمعیہ قلندرانی بلوچ اپنے پیغام میں کہتی ہے کہ آج میں کتنی خوش ہوں کہ میں بیان نہیں کرسکتی، مجھے اس دن کا کتنا انتظار تھا، یہ بھی بیان نہیں کرسکتی۔ میں کہتی ہوں شادی ہو، عشق وطن اور نظریے سے ہو، میری نظر میں وطن کے سوا کچھ بھی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آپ دیکھیں ہر جگہ بہنوں کی چیخیں ہیں، مائیں رو رہی ہیں، بھائی لاپتہ کیئے جارہے ہیں ان حالات میں ہم اپنی ذاتی زندگی کو خاطر میں لائیں تو میری نظر میں یہ ایک نیک شگون عمل نہیں۔ یہ کم ظرفی ہے کہ ہم مردہ ضمیر بن جائیں، اپنی قوم کی حالت نہ دیکھیں اور اپنی زندگی، ذاتی خوشیوں کو خاطر میں لائیں جبکہ قوم کے بچے، مائیں در بدر ہیں، اس کے باوجود ہم اپنی ذاتی زندگی کی سوچیں تو میری نظر میں یہ بہت ہی غلط عمل ہے۔

سمعیہ قلندرانی مزید کہتی ہے کہ میں اس عمل کو نہیں اپنا سکتا، کسی کو بھی یہ عمل نہیں اپنانا چاہیے اس (ذاتی خواہشات) کو کیوں اپنایا جاتا ہے، کیا ہماری سوچ (نظریہ) کمزور ہے؟ کیا ہم میں بہادری نہیں؟ ہم بزدل ہیں؟ اس کے اسباب کیا ہیں کہ اس طرح کے اعمال ہم اپناتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ آج میں اپنے وطن کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کررہی ہوں، میں بہت خوشی کیساتھ جارہی ہوں کہ میں وہ خوش قسمت ہوں کہ اپنے وطن کیلئے مجھے کچھ کرنے کا موقع ملا ہے میں اپنی بہنوں، ماؤں سے کہتی ہوں کہ آپ بھی آؤ اس کا حصہ بنو، راستہ یہی ہے، جہد یہی ہے، بلوچ قوم کے پاس آج کوئی اور راستہ نہیں بچا، ہمارے پاس یہی آخری راستہ ہے کہ اپنے قوم کیلئے کچھ کرسکیں اپنے دشمن کو دکھا سکیں، آئیے آج ہم متحد ہوکر کچھ کریں۔

سمعیہ بلوچ کہتی ہے کہ خواتین اور مردوں کے درمیان فرق کی چھوٹی سوچ کو ہم ختم کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے دشمن کیساتھ ساتھ پوری دنیا کو ایک پیغام پہنچائیں کہ بلوچ ایک ترقی پسند قوم ہے جو کسی بھی صورت نا انصافی کو برداشت نہیں کرسکتی ہے، کسی بھی صورت غلامی کو قبول نہیں کرتی ہے۔ اُس (بلوچ قوم) کیساتھ تم جس طرح کا عمل کروگے اس سے دگنا ردعمل تمہیں ملے گا۔ آئیے اس دشمن کو ہم دکھا دیں کہ ہم کون ہیں۔ اس دشمن کو کاری ضربیں لگانے کی ضرورت ہے۔

وہ مزید کہتی ہے کہ اس وطن کیلئے جگر گوشوں (قربانی) کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم اپنی قوم کیلئے اپنا لہو بہائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کبھی اپنی آنکھیں بند کرتی تو میرے کانوں میں میری ماؤں، بہنوں، بھائیوں کی چیخ و پکار آتی تھی۔ میں نیند سے جاگ جاتی تھی مجھے محسوس ہوتا کہ میری مادر وطن مجھے پکار رہی ہے، سرزمین مجھ سے پوچھتی ہے کہ میرے لیئے تم کیا کررہی ہو؟ مجھے تمہاری قربانی کی ضرورت ہے، تمہیں دشمن کو دکھانا ہے۔ تمہیں اپنے لہو سے تاریخ لکھنی ہے۔ پوری دنیا کو دکھانا ہے کہ تم بلوچ قوم کی بیٹی ہو؛ تم میں بہادری ہے، ہمت ہے، تمہارے پاس جذبہ ہے، تم اپنے دشمن کو کاری ضربیں لگا سکتی ہو۔

وہ مزید کہتی ہے کہ ہمیں اس چھوٹی سوچ کو ختم کرنا ہے کہ ہمارے خواتین کچھ نہیں کرسکتے ہیں خواتین سب کچھ کرسکتی ہیں بلکہ آج ہم (خواتین) جو کرسکتے ہیں شاید وہ مرد نہیں کرسکتے ہیں۔ آج ہماری قوم کو ہماری ضرورت ہے۔ آج میں جارہی ہوں خود کو قربان کرنے کیلئے، مجھے پتہ ہے میں ایک عظیم مقصد کیلئے جارہی ہوں۔ اس (میری شہادت کے) دن کو آپ اس طرح خوشی سے منائیں جیسے کہ عید ہو، مہندی لگائیں، پھول برسائیں، ہر جگہ مجالس اور خوشی کا سماں ہو، مجھے خوشی ہوگی کہ میری مائیں بہنیں میرے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس (قربانی) عمل کو آگے بڑھانا ہے، اس کو کبھی بھی مسدود نہیں کرنا ہے۔ میں کہتی ہوں عشق ہو تو وطن سے ہو اگر وطن سے نہ ہو تو میرے نزدیک اس دنیا میں عشق سوائے فریب کے کچھ بھی نہیں، حقیقی عشق وطن کی ہوتی ہے۔ یہ عشق دلوں میں آگ بھڑکا دیتی ہے۔ مجھے خبر ہے میں آج جارہی ہو، میرے بعد میرا وطن آزاد ہوگا لیکن آج میں ایک پیغام دے رہی ہوں اپنے وطن کی ماؤں، بہنوں، بچوں اور پوری دنیا اور اپنے دشمن کو، میں اپنے لہوسے پوری دنیا کو یہ کہہ رہی ہوں کہ میرا وطن غلام ہے۔ میں اپنے وطن سے غلامی کو ایک دن ختم کردوں گی۔

وہ مزید کہتی ہے کہ اگر کبھی آپ کے دل ہمارے لیے افسردہ ہوں، تو ہمارے لیے بالکل آنسوں نہیں بہائیں، جب آپ کے آنکھ سے ہمارے لیے کوئی آنسو بہے تو بلوچ قوم کے ان تمام شہداء کو یاد کریں جنہوں نے اپنے بچوں کو چھوڑ دیا، جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی اور سب کچھ قربان کرکے اس جنگ میں شامل ہوئے۔ مجید برگیڈ کا ہر نوجوان، جنہوں نے اپنے بچوں، ماں، بہن، بیوی کو چھوڑ کر خوشی سے (اپنے مشن پر) گئے۔ جنہوں نے فخر کیساتھ خود کو قربان کردیا۔ تو کبھی بھی آنسو نہ بہائیں، یہ خوشی کا دن ہے۔ ہمارے بعد آپ آئیے، اس جہد کو آگے لیجانے کیلئے۔

سمعیہ قلندرانی کہتی ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں آزادی آسانی سے نہیں مل سکتی لیکن ہمیں اپنے دشمن کو کسی صورت چھوڑنا نہیں ہے، اس کو دکھانا ہے۔۔۔

وہ مزید کہتی ہے کہ یہ (فدائی کا) راستہ شہید (فدائی) درویش نے ہمیں دکھایا، (شہید فدائی) ریحان جان نے اس کو نئی صورت دی۔ انہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں، آج ہم خاموشی کیساتھ اپنے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر اپنی ذاتی زندگی کی سوچیں تو میرے نزدیک یہ انتہائی غلط عمل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اس طرح کی ذاتی زندگی نہیں گذار سکتی کہ صرف اپنا سوچوں۔ ہم بھی انسان ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری خوشحال زندگی ہو لیکن غلام زندگی میں نہیں، ہمیں غلامی کی زندگی کی زنجیریں توڑنی ہیں، ہمیں اپنے دشمن کو دکھانا ہے کہ ہم ایک دن ایک آزاد وطن کے مالک ہونگے۔

سمعیہ مزید کہتی ہے کہ تاریخ گواہ ہے جو قومیں اپنے حق کیلئے کھڑے ہوتے ہیں، اپنے دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں، وہ دشمن کو دھول چٹاتے ہیں، ایک دن ہمارا دشمن بھی خاک میں مل جائے گا۔

وہ مزید کہتی ہے کہ میری ماؤں، بہنوں میری یہ باتیں آپ تک اس وقت پہنچیں گی، جب میں آپ کے درمیان نہیں ہوں گی لیکن آپ آنسو نہیں بہانا، اس دن کو خوشی کیساتھ منانا۔ مجھ سمیت جتنے بھی ساتھیوں نے قربانی دی ہے ان کو یاد کریں، ان کی بھی ایک زندگی تھی، وہ بھی ایک خوشحال زندگی چاہتے تھے لیکن انہوں نے اپنے قوم کی حالت دیکھی، وہ جانتے تھے، سمجھتے تھے کہ ہم غلام ہیں اگر اس جہد کا حصہ نہ بنیں اور جاکر اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں تو پھر ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوگا۔

وہ کہتی ہے کہ ہم وسائل سے مالا مال زمین کے مالک ہیں لیکن ہماری حالت کیا ہے؛ ہمارے بھائی دربدر ہیں، مائیں سردی گرمی میں سڑکوں پر ہیں، بہنیں آنسو بہا رہے ہیں، بہنوں کو گھیسٹ کر جیل و زندان میں پھینک دیا جاتا ہے، بچوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا ہے جبکہ ہم وسائل سے مالا مال ہیں، اس کے باوجود آج ہم اتنے بے بس ہیں۔ ان سب کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہم غلام ہیں۔

وہ کہتی ہے کہ آئیے! ہمیں غلامی کی زنجیریں توڑنی ہیں۔ اس دشمن کو کاری ضربیں لگانی ہے۔ اس کو سمجھانا ہے کہ آج بلوچ قوم کے مردوں کیساتھ اس کے خواتین بھی اٹھ کھڑے ہیں۔ اس کی بیٹیاں بھی دشمن کو پیغام دے رہی ہیں کہ ہم کسی صورت تمہیں اپنی سرزمین پر نہیں چھوڑے گے۔

سمعیہ قلندرانی اپنے پیغام کے آخر میں کہتی ہے کہ میرے ساتھیوں میں آپ سے رخصت نہیں کرونگی، میری ماؤں بہنوں میں ہر وقت آپ لوگوں کے ساتھ ہوں گی، جہاں کسی بھی شخص کے دل میں چھوٹا سا جذبہ ہوگا میں اس دل میں موجود رہونگی۔ میں اس وقت تک موجود رہونگی جب تک میری سرزمین آزاد نہیں ہوگا، جس دن میرا وطن آزاد ہوگا اس دن میں آپ سے رخصت کروں گی۔ تب تک رخصت نہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔