ہماری عید ۔ سائرہ بلوچ

270

ہماری عید

تحریر: سائرہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

درد جو زندگی کا ہمرکاب بن چکا ہے اور کبھی کبھی اس درد کو بیان کرنے کے لئے الفاظ بھی ساتھ نہیں دیتے۔ ہمیں اس درد کو سہنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن یہ درد خدا کی طرف سے نازل نہیں کی گئی ہے بلکہ ہم پر جبر کے ذریعے اُن لوگوں نے نافذ کیا ہے جو جبر و استبداد کے ذریعے ہمارے زمین پر خدائی کرنا چاہتے ہیں۔

عید ایک پر مسرت اور خوشی کا دن ہے، عزیر و اقارب سے ملنے کا دن ہے، خوشیاں بانٹنے کا دن ہے مگر ہم جو زمینی خداؤں کے جبر میں زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے لئے زندگی کے پُرمسرت دن اپنے عزیز ترین لوگوں کے بغیر گزارنا قیامت سے کم نہیں ہے۔

میں ایسے تہواروں پر سوچتی ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے ہمہارے پیاروں کو جبری گمشدہ کیا ہے، عقوبت خانوں میں اُن پر جبر کررہے ہیں، وہ لوگ کیسے خدا کا خوف کئے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ خدا کی رضا کے لئے قربانی کررہے ہیں۔۔؟ کیا وہ نہیں سوچتے کے جِن خاندانوں کی زندگیاں اُن کے عقوبت خانوں کی نذر ہورہی ہیں، اُن کی عیدیں کیسے گزریں گے ۔؟

میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی، دوستوں میں بحث چھڑ گئی کہ عید آچکی ہے اور عید کے لیے خریدے ہوئے چیزیں ایک دوسرے کو دکھائے، خوشی کے ساتھ عید پر گھر جانے اور پکنک منانے کا منصوبہ بناتے رہے۔ جب میرے سہیلی نے مجھ سے پوچھا کہ سائرہ تم بتاؤ عید کے لئے کیا تیاریاں کی ہیں۔۔؟ میں اسکو کیا بتاتی کہ اس عید بھائیوں کی بازیابی کے لئے احتجاج کی تیاری کررہی ہوں ۔۔؟ میرے پاس سوائے درد کی کہانیاں بیاں کرنے کے سوا زندگی میں کچھ بچا نہیں ہے اور صرف بھائیوں کے ساتھ عید پر گزرے دھندلی یادیں ہیں۔

بھائیوں کے جبری گمشدگی کے بعد ہمارے گھر کے لوگ جیسے خوشیاں منانا بھول گئے ہیں۔ یہ دسواں عید ہے کہ ہمارے بھائی زندانوں میں ازیت سہہ رہے ہیں اور ہم اُن کی یاد میں عیدیں گزار رہے ہیں۔

دوسرے سہیلی نے سوال کیا کہ سائرہ تو تم عید پر گھر جاؤگی ۔۔؟ ویسے بھی گیارہ تاریخ کو تمہاری پیشی بھی ہے۔ یہ پیشی میرے بھائیوں کے بازیابی کے لئے نہیں بلکہ اسلام آباد میں انصاف مانگنے کی پاداش میں ریاست نے مجھ پر بغاوت کی ایف آئی آر درج کی ہے۔

ایک طرف ریاستی جبر سہہ رہے ہیں جبکہ اسی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں ایف آئی آر درج ہورہے ہیں، انہی عدالتوں میں میرے بھائیوں کے بازیابی کے کیسز چل رہے ہیں اور اب انہی عدالتوں میں خود بھی پیش ہورہی ہوں۔

میں ایسے خوشی کے مواقع پر گھر جانا نہیں چاہتی کیونکہ پُرمسرت دن ہمارے گھر ماتم کا سماں پیش کرتی ہے، میرے والدین کے آنسو بھری آنکھیں اپنے بچوں کے دید کے منتظر ہیں اور اپنے بھابیوں کے سوالات کے جواب میرے پاس موجود نہیں ہیں۔

میں پیشی کے لئے گئی اور جب واپس آئی تو میرے سہیلی عید منانے کے لئے گھر جاچکے تھے، میرے ابو نے فون کرکے دریافت کیا کہ تم عید پر گھر نہیں آؤگی ۔۔؟ ایک لمحہ تذبذب بعد میں نے ابو کو جواب دیا کہ عید کے دن جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ریلی ہوگی، میں ریلی میں شریک ہو نگی، گھر نہیں آسکوں گی۔

میں نہیں جانتی کہ عقوبت خانوں میں میرے بھائی کس حال میں ہونگے، میں اچھائی کی امید نہیں کرسکتی کیونکہ وہ سے لوگوں کو ہم نے لاشوں اور نیم زندہ انسانوں کی صورت میں واپس آتے دیکھا ہے۔

بھائی کے ساتھ گزرا وہ عید بھی مجھے یاد ہے ، جب عید قریب ہوئی اور اماں کپڑے تیار کررہی تھی، بھائی نے ہم سے پوچھا تھا کہ عید کے لئے کتنے جوڑے تیار کررہے ہو تو ہم نے جواب دیا تھا کہ تین جوڑے، بھائی نے ہمیں تلقین کی تھی ہم ایک محکوم قوم سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے اردگر کئی خاندانوں کے بچوں کو عید پر کپڑے نہیں ہیں، اُن کے بارے میں سوچوں اور ہمیں کہا کہ ایک جوڑا اپنے لئے رکھوں، دو جوڑے ضرورت مند لوگوں کو دیں۔ آج اُسی بھائی کی بازیابی کے لئے عید کے دن میں احتجاج کررہی ہوں۔

میں نے آپکو اور رشید کو کبھی عید کے دن نئے کپڑے پہنے نہیں دیکھا۔ آپ یہی کہا کرتے تھے کہ ہم محکوم ہیں اور محکوموں کیلئے عید نہیں ہوتی۔ آپکی جبری گمشدگی کے بعد عیدیں اور زندگی کے بیشتر دن احتجاجوں میں گزر رہی ہیں۔

آپ کی جبری گمشدگی نے مجھے قوم کے درد سے آگاہ کیا ہے، میں ہمیشہ کوشش کیا کرتی ہوں کہ اپنے ساتھ احتجاجوں میں شریک ان ماؤں کے آنسو پونچھا کروں جنکے بیٹے سالوں سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدہ ہیں ز

میرے پاس عید کے دن اپنے بھائیوں کو یاد کرنے کے سوا، کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔

میرے عزیر بھائی جب آپ ریاست کے عقوبت خانوں سے لوٹو گے، ہم مل کر عید منائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔