کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

98

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل احتجاجی کیمپ آج 5479 دن بھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری رہا-

پی ٹی ایم کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر آغا زبیر شاہ و دیگر مرد و خواتین نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین اور ماما قدیر بلوچ سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست بلوچ، سندھیوں اور پشتون کارکنان کو اغواء کرکے انکی مسخ لاشیں ویرانوں میں پھینک دیتی ہے، نوجوان کو لاپتہ کر کے ٹاچر سیلوں میں مقید کیا جارہا ہے جب انہیں کوئی تدبیر سوجھتی ہے تو یکدم ہمارے فرزندان وطن کو بطور دہشت گرد کے سامنے لایا جاتا ہے اور الزامات جھوٹ پر مبنی مختلف پروپیگنڈوں کو میڈیا کے ذریعے لگائی جاتی ہے-

انہوں نے کہ ہم گلہ مند نہیں کھبی وہ ہمارے ان سجیلے نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں سے نکال کر میدانوں میں شوٹنگ رینجوں کھڑا کرکے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کیاجاتا ہے بعد ازاں یہی ڈرامہ رچایا جاتا ہے کہ انہیں پولیس یا سی ٹی ڈی مقابلہ میں ہلاک کردیا ہے اور کسی تنظیم سے انھیں جوڑ دیتی ہے-

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ معاشرہ میں ہرشخص ہر قوم کے مرد کو سیاسی مذہبی سماجی سرگرمیاں جاری رکھنے کا بنیادی حق حاصل ہے لیکن ہمارے سیاسی کارکن جبری اغواء ہو جاتے ہیں اہل و عیال شدید ذہنی کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے ہیں احتجاج ہوتی ہے لیکن ریاست ٹس سے مس نہیں ہوتا وہ گونگا بناہے بہرا بنا ہوا ہے کان پر جوں تک نہیں رینگتی-

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا بے حرمتی کا اندازہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ شہید کر کے چہرے کو تیزدار نوک سے جسم کے چمڑے پر مردہ باد اور ذندہ باد کے نعرے لکھا جاتا ہے ہزاروں کارکنوں سیاسی غیر سیاسی فرزندان وطن کو خفیہ اداروں والے جبری اغواء کر کے ٹاچر سیلوں کی زینت بنایا جاتاہے جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں عیاں وہ زندہ ہے یا شہید کئے جاچکے ہیں-