کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

33

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5471 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر سردار شکر خان کرد، احمد شاہ کرد ، غلام حیدر مینگل اور دیگر نے آکر اظہار یکجہتی کی ۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی آرمی اور اس کے خفیہ اداروں کے مظالم سے ہر ذی شعور انسان آگاہ ہے کس طرح مسلمانیت کے لبادے میں چھپے پاکستانی فورسز آئے روز بلوچ نوجوان بزرگوں کے جبری اور مسخ شدہ لاشوں کے ذریعے انسانیت کی دھجیاں اڑا رہی ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ مظالم کی ایسی داستانیں کہ انسانیت کانپ جاتی ہے۔ ایک ہفتے میں ڈیرہ بگٹی سے تیس 30 کے قریب لوگوں کو جبری اغوا کیا گیا ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج بلوچ بھی انہی تاریکی بے سلوکی داخلی عالمی استعمار کا شکار ہے ۔جہاں انسانیت سوز ظلم جبر کی طرف سے عطا کردہ حق کی لڑائی میں بلوچیت کے لبادے میں خود سردانشور بھی قابض ریاست کے بین پر سرونیت ہوتے ہیں ۔ دیسی دانشوروں کے سر میں ایک ایسی انفرادیت پسند معاشرت کا تصور ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ آج کے جدید دور میں نام و نہاد قابض کے دانشوروں کے ساتھ ہمارے دیسی دانشوروں کی نمائش کی خود رونمائی نرگسیت انفرادیت فیس بک دیگر نیٹ کے ذریعے صاف دیکھی جاسکتی ہے ۔ آج عالمی میڈیا بلوچ نسل کشی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں 1945 میں متعین کے 45 ہزار انسانوں کے قتل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی 1947 میں مڈغاسکر کےلئے نوے ہزار اموات اخبارات میں محض ایک مختصر پیراگراف کی جگہ حاصل کرسکیں 1952 کے دولاکھ جبر تشدد کے شکار انسانوں کے ساتھ کم و بیش لا تعلقی کا سلوک بھی یہی رہا۔ آج کے دور کو انٹرنیٹ مشینری، سہولیات کا تاریخ ساز دور کہا جاتا ہے مگر بلوچ کے ہزاروں فرزندوں کی گمشدگی و ہلاکتوں پر خاموشی عالمی سامراجیت کی کڑیاں ہیں ۔ بلوچ نے آج تک کسی قوم یا ریاست کو یہ نہیں کہا کہ آئیں ہمیں حق دلائں ۔ اس لئے کہ کوئی کسی کے لیے حق کا سامان نہیں کرسکتا ۔ بلوچ اپنے حق لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اسی دنیا کی بنائی گئی قوانین کے تحت لڑ رہا ہے ۔ اور عالمی قوانین اقوام متحدہ کی چارٹر کے مطابق بلوچ نسل کشی پر پاکستانی ریاست سے نہیں بلکہ عالمی امن کے چیمپین سے کہہ رہی ہے کہ اپنی بنائی گئی قوانین کا خیال کریں ۔لاکھ ظلم جبر سہی پھر بھی آج بلوچ اپنے صفوں کو مظبوط کر کے اس غلامی کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔