جبری لاپتہ امیر بخش بلوچ کی بیٹی صدف امیر بلوچ نے کہا ہے کہ میرے والد امیر بخش بلوچ کو 2014 میں جبری لاپتہ کیا گیا تھا، جو تاحال لاپتہ ہے اور میں اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گی اور اپنے والد کے ساتھ تمام لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھاؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سمی دین ہر لاپتہ بلوچ کی آواز ہے اور وہ گزشتہ 15 سالوں سے اپنے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت ہر لاپتہ بلوچ فرزند کی بازیابی کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ آئیے 28 جون کو سمی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ 28 جون کو اس کے والد کی جبری گمشدگی کو 15 سال مکمل ہو جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ وائس فار جسٹس نے 28 جون کو شام 7 بجے سے رات 12 بجے تک ایکس پر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ میری آپ سب سے اپیل ہے کہ اس مہم کا حصہ بنیں اور جبری گمشدہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی باحفاظت بازیابی کے لیے اپنی آواز بلند کریں، ٹویٹ کریں کیونکہ ہر آواز اور ہر ٹویٹ کا شمار ہوتا ہے۔ لہذا مہم کا حصہ بنیں۔
دریں اثناء جبری لاپتہ چنگیز بلوچ کی ہمشیرہ حفظہ بلوچ نے کہا ہے کہ سمی دین بلوچ گزشتہ 15 سالوں سے اپنے والد کی شفقت سے محروم ہیں اور ان 15 سالوں میں انہوں نے جس طرح ایک بیٹی کے طور پر اپنے والد کی بازیابی کے لیے لڑنے کا فرض ادا کیا ہے اور ساتھ میں وہ تمام بے آواز لاپتہ افراد کے خاندانوں کی وکیل اور موثر آواز بن کر آگے آئی۔
انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سمیت بہت سے بلوچ بیٹیوں کی آئیڈیل ہے انہیں دیکھ کر ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور میری طرح اور بہت سی بہنیں اور بیٹیاں اپنے باپ اور بھائیوں کی بازیابی کے لئے گھروں سے نکل کر جدوجہد کر رہی ہیں۔
سمی کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 28 جون کو 15 سال مکمل ہو جائیں گے، ان کی بازیابی کے لیے بلوچ وائس فار جسٹس نے 22 جون سے 28 جون تک سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ آخری دن 28 جون کو شام 7 بجے سے 12 بجے تک ایکس پر مہم چلائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ میری تمام انسان دوست افراد سے اپیل ہے کہ اس مہم میں شامل ہو کر سمی اور مہلب کی آواز بنیں، تمام لاپتہ افراد کے اہل خانہ، صحافیوں، سیاسی و سماجی افراد سے درخواست ہے کہ وہ اپنی دو منٹ کی ویڈیو بنا کر X پر پوسٹ کریں، مضمون لکھیں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی باحفاظت بازیابی کے لیے آواز اٹھانے کے لیے جتنا ہو سکے ٹویٹ کریں۔