بلوچ وائس فار جسٹس کے ترجمان نے کہا ہے کہ انیس بلوچ کی خضدار سے جبری گمشدگی تشویشناک ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں کیچ، کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقوں سے درجنوں افراد کو فورسز نے غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔ ان میں بڑی تعداد طلباء کی ہے۔ گزشتہ دنوں اے ون سٹی کوئٹہ سے 6 طلباء کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا جن میں سے 5 طلباء بازیاب ہو گئے تاہم فاروق بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ تربت سے کوئٹہ تک لوگ جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ چار روز سے درجنوں لاپتہ افراد کے لواحقین شہید فدا چوک تربت میں دھرنے پر بیٹھے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کا گھناؤنا سلسلہ بند کیا جائے اور ہمارے پیاروں کو بازیاب کروایا جائے لیکن دوسری طرف ریاستی ادارے مزید لوگوں کو لاپتہ کرکے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے اپنے جرم سے پیچھے ہٹنے کے بجائے اس میں مزید تیزی لائیں گے۔ انیس بلوچ کو گزشتہ شب خضدار سے جبری طور پر لاپتہ کرکے ریاست نے جبری گمشدگیوں کے معاملے کو حل کرنے کے بجائے غیر سنجیدہ رویہ کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اب جبری گمشدگیوں کے خلاف منظم مزاحمت ناگزیر ہو چکی ہے، بلوچ قوم کو ریاست کے اس رویے کے خلاف بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔ ترجمان نے تربت کے باشعور لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دھرنے میں بھر پور شرکت کریں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس آج 5 جون کو فاروق بلوچ اور انیس بلوچ کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ کی جانب سے چلائی جانے والی ایکس مہم میں شرکت کریں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کریں.