پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمان پیر کو عید الاضحیٰ منا رہے ہیں اور جانوروں کی قربانی کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں احمدیہ کمیونٹی کو جانوروں کی قربانی کرنے کی وجہ سے اپنے خلاف کارروائیوں کا سامنا ہے۔
پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤ الدین، شیخورپورہ، فیصل آباد، وزیر آباد اور حافظ آباد سمیت دیگر اضلاع میں احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو قربانی سے روکنے کے لیے تھانوں میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
احمدیہ کمیونٹی کے افراد کو جانوروں کی قربانی کرنے کی صورت میں مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے تحت مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں جب کہ بعض علاقوں میں احمدی افراد کے ساتھ ساتھ ان کے قربانی کے جانوروں (بکروں) کو بھی پولیس نے پکڑ لیا ہے۔
احمدیہ کمیونٹی کو قربانی سے روکنے کے لیے تھانوں میں دائر بیشتر درخواستیں مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مقامی رہنماؤں نے جمع کرائی ہیں۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے الزام عائد کیا ہے کہ کچھ مذہبی عناصر کے دباؤ پر پنجاب پولیس عیدِ قربان کے موقع پر احمدیوں کو مسلسل ہراساں کر رہی ہے اور اور انہیں چار دیواری کے اندر قربانی کے فریضے سے روک رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف اضلاع میں احمدیوں کو تھانوں میں بلا کر کہا جا رہا ہے کہ قربانی کی صورت میں انہیں نقصان پہنچایا جاسکتا ہے، لہذا وہ اپنی سلامتی کی خاطر قربانی کا فرض ادا نہ کریں۔
عامر محمود نے بتایا کہ سیالکوٹ کے علاقے موترہ میں پانچ احمدیوں، لاہور، فیصل آباد، گوجرنوالہ اور تحصیل ڈسکہ میں ایک ایک احمدی کو ان کے بکروں سمیت پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
ترجمان احمدیہ کمینوٹی نے پولیس کی ان کارروائیوں کو غیرقانونی و غیر آئینی قرار دیا ہے۔
ترجمان جماعت احمدیہ کے مطابق عید الاضحیٰ کے موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے زبردستی روکنے جیسے اقدامات آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 20 اور سپریم کورٹ کے 12 جنوری 2022 کو دیے گئے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے [Cr1.P.916-L/2021] میں قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔
تاہم اس سال احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکنے کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ شدت محسوس کی گئی ہے۔
عید الضحیٰ کے تین دنوں میں احمدی کمیونٹی کے افراد کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور 298بی کے تحت جماعت احمدیہ کے کسی رکن کو مسلمان ظاہر کرنے، عبادت گاہوں کے لیے اسلامی اصطلاح استعمال کرنے پر پابندی ہے اور ایسا کرنے پر تین سے دس برس تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جماعت احمدیہ کے اراکین اس قانون کو ناانصافی پر مبنی قرار دیتے ہیں جب کہ انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں ان قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔
احمدی کمیونٹی کے افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ سال 2022 اور 2023 میں عید الضحیٰ کے موقع پر جو مقدمات درج ہوئے تھے ان میں سے کچھ مقدمات میں ملوث افراد بری ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس) نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے حملوں، بدسلوکی، عبادت گاہوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی سمیت ریاستی سطح پر امتیازی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اس سے قبل پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ برائے 24-2023 میں کہا تھا کہ پاکستان میں مذہبی عقائد کی بنا پر لوگوں کے انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ احمدیہ عقائد سے تعلق رکھنے والی 35 عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا جب کہ مذہبی عقائد کی بنا پر 21 احمدیوں کو حراست میں لیا گیا۔