بلوچستان میں ایٹمی بم کے تجربے کے بعد پیدا ہونی والی تابکاری اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے ریاست پاکستان نے اقدامات نہیں کیے کیونکہ پاکستان بلوچ کی ریاست نہیں بلکہ ایک قبضہ گیر ریاست ہے۔
ان خیالات کا اظہار بی این ایم کے شہید راشد مشکے ۔ آواران ھنکین کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ یہ پروگرام 28 مئی 1998 کو بلوچستان میں ایٹمی تجربات کے بلوچستان پر تابکاری اور سیاسی اثرات کے موضوع پر تھا۔
پروگرام کے مہمان خاص بی این ایم کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ تھے جبکہ مرکزی کمیٹی کے ممبر چیف اسلم، ھنکین کے نائب صدر تلار، ھنکین کے خازن میرک اور شھید منان یونٹ کے سیکریٹری ریحان نے بھی تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اسی موضوع پر شہید انور ایڈوکیٹ کیچ ۔ گوادر ھنکین میں بھی ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں بی این ایم کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست نے ایٹمی تابکاری کے بلوچستان پر اثرات پر اپنے خیالات پیش کیے۔
انھوں نے کہا 26 سال گزرنے کے باوجود راسکوہ اور گرد و نواح کی آبادیاں مشکلات کا شکار ہیں۔ جلد اور خون کے کینسر کی بیماریاں معمول بن چکی ہیں۔ ان تجربات سے پہلے شاذ و نادر ہی ان بیماریوں کا ذکر سننے میں آتا تھا اب ہر سال درجنوں افراد اس مرض کا شکار ہوکر موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔
مقررین نے کہا بلوچ قوم کے خلاف پاکستان ہر طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے؛ منشیات ، ناخواندگی ، لوگوں کو اپنے علاقوں سے جبری بیدخل کرنا۔ آج پاکستان چین کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کے ساتھ ناروا سلوک کر رہا ہے۔ ڈیرہ بگٹی ، ریکوڈک اور گوادر میں وسائل لوٹے جا رہے ہیں اور بلوچ عوام بدتریں حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔بلوچ قوم کو غلام بنا کر اسے اپنی سرزمین میں اختیار و اقتدار سے محروم کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا محض خوش کن نعروں اور خوشنما الفاظ سے تبدیلی نہیں آتی ہمیں اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی کے لیے آزادی کی جدوجہد میں قربانیاں دینی ہوں گی اور قومی ادارے مستحکم کرنے ہوں گے۔ہر جہدکار کو اپنی فہم وفراست اور اہلیت کے مطابق قومی مقصد کے لیے میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔ہماری محبتیں ، ہمارے اتحاد اپنی سرمین اور اپنے قومی سیاسی کارکنان کے لیے ہونی چاہئیں اور ہماری نفرت اور ناپسندیدگی بلوچ قوم کے بدخواہوں کے لیے ہونی چاہیے ، اس سے ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی ملے گی۔