واشک واقعہ بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے ۔ اسلم آزاد

178

واشک واقعہ بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے

تحریر: اسلم آزاد
دی بلوچستان پوسٹ

واشک کے علاقے بیسمہ میں پیش آنے والا واقعہ بس کے پرانے ٹائر، ڈرائیور کی غفلت یا ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالکان کی وجہ سے نہیں بلکہ سانحے کی بنیادی ذمہ دار ریاست ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی قدرتی حادثہ نہیں تھا بلکہ ریاست کی نسل کشی کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔

بلوچ سماج میں جو لوگ مختلف طریقوں سے بس ڈرائیوروں، بس مالکان اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ دراصل اسے ویکٹم بلیمینگ کہتے ہیں یہ غیر ارادی حرکت ہے یہ عمل صرف ٹرانسپورٹروں اور بس ڈرائیوروں کے دلوں میں بغض اور نفرت کو پروان چڑھائے گی۔ شاید ریاست کے خوف کی وجہ سے ناقدین ریاست کا احتساب کرنے کے بجائے غیر ضروری اور نفرت انگیز تبصرے پھیلاتے ہیں۔

مذہبی رسومات ادا کرنا لواحقین کا بنیادی حق ہے، لیکن انصاف کے لیے ریاست سے مطالبہ کرنا چاہیے، دوسری طرف موقع پرست دانشور، صحافی، سیول سوسائٹی، اکیڈیمیہ سانحات پر سیاست کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ سچ پر پردہ ڈال سکیں۔ ایسے لوگ کبھی نہیں چاہتے کہ عوام مسائل کی اصل وجوہات جانیں۔

پورے بلوچستان میں سنگل روڈ مار بردار (ایچ ٹی وی) کو ایک خاص استحصالی مقصد کے ساتھ بنایا گیا ہے تاکہ بلوچستان کے وسائل کو آسانی سے دوسرے صوبوں میں منتقل کیا جا سکے۔ دریں اثنا، مسافر گاڑیاں (ایل ٹی وی) اکثر اسی سنگل سڑک پر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ مسافر گاڑیوں کے لیے رفتار کی حد کو نافذ کرنے کے لیے M8 پر موٹروے پولیس کی کوئی تعیناتی نہیں ہے, گاڈی کی روانگی سے پہلے مینٹیننس سرٹیفیکیٹ کیوں نہیں؟ کلئیرنس سرٹیفیکیٹ دینا کس کی زمہ داری ہے؟

ایسے واقعات کے فوراً بعد سیاستدان اپنے سیاسی فائدے اور سیاسی دکان چلانے کے لیے حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جب ذیادہ ہلاکتیں ہوں تو ریاستی ادارے ایک یا دو ہیلی کاپٹر اور کئی کیمرے لے کر جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عوامی ہمدردی اور اعتماد کو حاصل کے لیے چند تصاویر کھینچ کر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہیں۔ نتیجتاً عوام الناس کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جاتی ہے۔

اس واقعے کے ردعمل میں عوامی جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے جذباتی بیانات دیے جاتے ہیں، جعلی تعزیت و ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے، جھوٹے آنسو بہائے جاتے ہیں اور عوام سے جھوٹی امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں، سرسری یقین دہانی کی جاتی ہے۔ اس میں حکومتی سطح پر انکوائری کمیشن کی تشکیل اور چار بدعنوان اہلکاروں کو تحقیقاتی ڈیوٹی سونپی جاتی ہے تاکہ عوامی غم و غصہ ٹھنڈا ہو، لیکن اس طرح کے اسکرپٹ برسوں سے چل رہے ہیں، اب بلوچ قوم باشعور ہوچکا ہے۔

نتیجا چار بے گناہ اور معصوم بلوچ کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا، بس مالکان کے خلاف بوگس ایف آئی آر اور گرفتاری اور جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لیے دو لاکھ روپے جبکہ زخمیوں کو ایک ایک لاکھ روپے بطور صدقہ دینے کا اعلان کیا جائے گا۔ دونوں اطراف سے بلوچ قوم نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ریاست کی خواہش و کوشش ہے کہ لوگ آپس میں لڑیں تاکہ عوامی توجہ قومی غلامی ہٹ جائے۔

بلوچستان میں روزانہ کئی گنا لوگ ڈینگی، جہالت، فاقہ کشی، جسم فروشی، جرائم، منشیات، بے روزگاری، جسمانی بیماریوں، ذہنی امراض، تشدد، خوف، ڈپریشن، پریشانی، غذائی قلت، بچوں کی پیدائش، کوئلے کی کانوں اور سرحدی واقعات سے مرتے ہیں۔ یہ سارے مسائل نوآبادیاتی نظام کی نشانات ہیں، کیا ان مسائل کا بنیادی وجوہات پر کبھی کوئی توجہ دی گئی ہے؟

بلوچستان جل رہا ہے۔ ریاست مختلف طریقوں سے بلوچوں کا نسل کشی کر رہا ہے جیسا کہ سیاسی، معاشی، سماجی، جنسی، جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، نباتاتی، فکری، فنی، علمی، تعلیمی، جغرافیائی، آبادیاتی، شماریاتی، اخلاقی، قبائلی، علاقائی، لسانی، تاریخی، مذہبی، ذہنی، اور ثقافتی جبکہ جنگلی اور سمندری حیاتیات کا بھی قتل ہورہا ہے۔۔۔مقامی لوگوں کو نیست ونابود کیا جا رہا ہے۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟

جہاں تک کلگلی حادثے کا تعلق ہے تو ایک مظلوم قوم کے تیس افراد کیڑے مکوڑوں کی طرح مر گئے۔ کیا یہ ایسی بے مثال تباہی ہے؟ اس سے قبل ایک سال پہلے لسبیلہ کے علاقے اوتھل میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جہاں ایک مسافر بس کھائی میں جا گری تھی جس کے نتیجے میں پینتالیس مسافر بیک وقت جاں بحق ہو گئے تھے۔ اوتھل، لسبیلہ واقعے کے بعد کیا ہوا؟ کچھ نہیں.. اس غلامانہ نظام میں اب بھی کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس واقعے کو سمجھنے کے لیے کسی سائنسی فارمولے یا پیچیدہ تھیوری کی ضرورت نہیں ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں یہ پہلے سے طے شدہ ہے کہ مختلف ذرائع سے زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو ہلاک کیا جائے کیونکہ اس حکمت عملی سے استحصالی قوتوں کے لیے ساحل اور وسائل سے مالا مال علاقوں پر قبضہ و لوٹ مار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

اس نوعیت کی واقعات نوآبادیاتی نظام میں پہلا واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی آخری ہوگا۔ جب تک ریاستی پالیساں بلوچوں کے متعلق تبدیل نہیں ہونگے اس قسم کے حادثات ہوتے رہیں گے اور بلوچوں کو مزید لاش موصول ہوتے رہیں گے۔ بلوچ قوم کو ذہنی طور پر تیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں وہ ایسے حالات میں ذہنی اذیت کا شکار نہ ہوں اور ریاست کے منفی عزائم کو ناکام بنانے کے لئے جدوجہد کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔