ملیر: سید ہاشمی لائبریری مسمار ہونے کا خطرہ، عمارت پر نشانات لگ گئے

180

ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے، 39 کلومیٹر لمبی ہائی وے کی بھاری مشینری ملیر قائد آباد پُل تک پہنچ گئی ہے۔

ملیر ایکسپریس وے عملے کی جانب سے لگائے گئے نشانات کے مطابق غلام محمد بلوچ گوٹھ کے نصف حصے میں موجود مکان و دکان مسمار کئے جائینگے۔ مقامی ذرائع کے مطابق ملیر قائد آباد پُل کے توسیع کا کام بھی شروع ہونے والا ہے۔ رات گئے ملیر قائد آباد پُل کے اُس پار موجود ملیر کی سب سے بڑی پبلک لائبریری سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ کی عمارت پر نشانات لگائے گئے ہیں۔

نشانات کی تصاویر و وڈیو وائرل ہونے کے بعد کراچی کی علمی ادبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم یہ معلوم نہ ہوسکا کہ نشان کس ادارے نے لگائے ہیں۔

سید ہاشمی ریفرنس لائبریری انتظامی کمیٹی کے صدر اکبر ولی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہم نے ملیر کے منتخب نمائندوں سے رابطہ کیا ہے لیکن کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ لائبریری کس منصوبے کے زد میں آرہا ہے۔

انہوں نے کہا بلوچی زبان کے مشہور ماہر لسانیات، ناول نگار اور شاعر سید ظہور شاہ ہاشمی سے منسوب اس لائبریری کا سنگ بنیاد دسمبر 2003 میں لال بخش رند نے رکھا۔

لائبریری میں 14 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں، ہم لائبریری کی جانب سے تاحال 40 سے زائد کتب شائع کر چکے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان یہاں مطالعہ کرتے ہیں۔

اکبر ولی نے کہا ملیر کی عوام لائبریری کو مسمار ہونے نہیں دیگی۔ ادھر سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کے مسمار ہونے کے خدشات پر کراچی کے علمی ادبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

سوشل ایکٹوسٹ حفیظ بلوچ، ڈاکٹر پروفیسر رمضان بامری، کالم نگار عزیز سنگھور، واحد کامریڈ، عظیم دہکان، عمران ایڈوکیٹ، صحافی بشیر بلوچ، ریاض بلوچ و دیگر نے کہا سندھ حکومت کی جانب سے ملیر میں کوئی لائبریری قائم نہیں کی گئی۔سید ہاشمی ریفرنس لائبریری عوام کے چندوں سے قائم کی گئی ہے اس کو ایک سڑک کی خاطر مسمار کرنا افسوسناک عمل ہے، انہوں نے کہا لایبریری میں بلوچی ادب کا نایاب ذخیرہ موجود ہے، حکومت و انتظامی اداروں کو اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔ کسی بھی منصوبے کے تحت لایبریری کو مسمار کرنا قابل مذمت عمل ہے۔ حکومت علمی ادارے تعمیر کرنے کے بجائے بنے بنائے اداروں کو مسمار کرکے ملیر کی عوام کو جھالت میں رکھنا چاہتی ہے، ایسی سازش کے خلاف عوام مزاحمت کریگی۔