ملیر ایکسپریس وے کے نام پر سید ریفرنس لائبریری سمیت وہاں کے مکینوں کو بے دخل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ این ڈی پی

66

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ استعمار کا وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی خطے میں مقامی آبادی کا مرضی و منشاء کے بغیر ترقی کے نام پر ہمیشہ استحصال کیا جاتا ہے جس طرح اس خطے میں بھی مختلف علاقوں میں بسے بلوچ قوم کو ترقی کے نام پر نوآبادکاری کے ذریعے استحصال کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔ بلوچستان بھر کی طرح بلوچوں کے قدیم علاقے ملیر کو بھی سازش کےتحت استحصالی پراجیکٹس کے ذریعے ترقی کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ کراچی کے اشرافیہ علاقوں کو جوڑنے والی سڑک کے لئے درجن بھر بلوچ اکثرتی گوٹھوں،سینکڑوں ایکڑ زرعی زمینوں، درختوں سبزہ زاروں سمیت ریفرنس لائبریری جیسے بلوچوں کے اہم علمی ادارے کو قربان کیا جا رہا ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ ایسا کوئی بھی عمل خود پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1977 اور سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔

ترجمان نے کہا کہ کراچی سمیت بلوچستان بھر سے بلوچ اقوام، سیاسی پارٹیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائیٹیز سمیت مظلموم اقوام کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس منصوبے خلاف بلا کسی خوف سیسہ پلائی دیوار بن کر مزاحمت کریں اور یاد رکھیں کہ جب بھی محکوم ایسےاستحصالی منصوبوں اور نو آبادکاری کے خلاف آواز اٹھا کر جدوجہد کرتے ہیں تو سامراج اور ظالم کی جانب سے ہمیشہ ان کے اوپر ظلم و جبر کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کیا جاتا ہے، لیکن محکوم اور مقامی آبادی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی مستقبل مزاحمت کرنے میں پنہاں ہے، مظلوم اور مقامی بلوچوں کے پاس بھی مزاحمت کے سواء اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کے نام پر ملیر کی مقامی آبادی کی بے دخلی سمیت شہید صباء دشتیاری کی نشانی سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کو گرانا ایک گھناؤنی حرکت ہے، ریاستی حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ سید ہاشمی ریفرنس لائبریری صرف ایک لائبریری نہیں بلکہ بلوچ قوم کی تاریخ اور ادب کی ایک آرکائیو کی حیثیت رکھتی ہے، سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کو گرانا بلوچ قوم کے تاریخ اور ادب سمیت شہید صباء دشتیاری کی آخری نشانی کو ختم کرنے اور مٹانے کی مترادف ہے، جس کی بلوچ قوم قطعا اجازت نہیں دےگی۔