صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ وہ مستقبل قریب میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کی توقع نہیں رکھتے، جبکہ عالمی حمایت یافتہ امریکی تجویز کو اسرائیل یا حماس نے مکمل طور پر قبول نہیں کیا ہے۔
بائیڈن نے بتایاکہ اٹلی میں گروپ آف سیون کے سربراہی اجلاس میں بین الاقوامی رہنماؤں نے جنگ بندی پر تبادلہ خیال کیا ہے، لیکن جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا جلد ہی جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے گا، تو بائیڈن نے سادہ سا جواب دیا، “نہیں۔”
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اس سے قبل جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ حماس کی پیش کی گئی کچھ تبدیلیاں” مناسب اور معمولی” ہیں اور ان پر عمل کیا جاسکتا ہے، جب کہ دوسری تبدیلیاں صدر جو بائیڈن کی طرف سے تفصیلی طور پر بیان کیے گئے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے توثیق کردہ پیرامیٹرز کے مطابق نہیں ہیں۔
سلیوان نے واضح کیا کہ یہ مذاکرات جن میں مصر اور قطر کے حکام کے ساتھ بالواسطہ بات چیت شامل ہے، ان کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ ان میں پیش رفت کے لیے وقت درکار ہے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات کے لیے ،”ہم( امریکہ ) قطر اور مصر کے ساتھ مل کر کام کریں گے ، قطر اور مصر حماس کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور قطر مصر اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اور مقصد یہ ہے کہ ان مذاکرات کو جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ “
امریکی حکام نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی تجویز ایک اسرائیلی تجویز ہے، اور سلیوان نے جمعرات کو کہا کہ اسرائیلی اس پر قائم ہیں۔
اسرائیل کے 45 اہداف پر فضائی حملے
اسی اثنا میں اسرائیلی فوج نے جمعرات کو کہا کہ اس نے پورے غزہ میں 45 اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں۔ جب کہ امریکہ حماس کی طرف سے کثیر مرحلہ اسرائیلی تجاویز کا متعدد ترامیم پر مبنی جواب کے بعد جنگ بندی کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں زمینی کارروائیوں اور فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ وسطی غزہ کی پٹی میں بھی کارروائیوں کی اطلاع دی۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں جزیرہ نما عرب سے متعلق پروگرام کے ڈائریکٹر جیرالڈ فیئرسٹائن کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات میں قدرے ابہام رہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ “اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایک بیان آیا ہے جس میں بظاہر اس بارے میں شکوک شبہات اٹھائے گئے ہیں کہ وہ کیا تجاویز ہیں جن کے بارے میں اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ انہوں نے اس سے اتفاق کیا ہے”۔
انہوں نے مزید کہا “حماس نے بھی کہا ہے کہ انہیں تحریری طور پر جو کچھ ملا ہے وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا جو کچھ وہ ان کے زبانی تبصرے سے سمجھے تھے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ وہاں بہت زیادہ ابہام ہے اور اصل صورتحال واضح نہیں ہے۔”
فئیر اسٹائن نے جو یمن میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں کہا، “میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں فریقین واقعی متفق ہو جائیں… تومجھے یقین ہے کہ ان کےدرمیان معاہدہ ہو جائے گا۔”
اسرائیلی تجاویز کے مراحل
پہلا مرحلہ
تین مرحلوں پر مشتمل اسرائیلی تجویز کے ابتدائی مرحلے میں، لڑائی کو روکنے، غزہ سے کچھ یرغمالوں کی رہائی، اسرائیل کے زیر حراست کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی، فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد میں اضافہ، غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا اورفلسطینی شہریوں کی اپنےگھروں اور محلوں میں واپسی کے لیے کہا گیا ہے ۔
دوسرا مرحلہ
دوسرے مرحلے میں غزہ میں دوسرے تمام یرغمالوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلاء کے بدلے جنگ کے مستقل خاتمے کی توقع کی گئی ہے ۔
آخری مرحلہ
آخری مرحلے میں غزہ کی پٹی کے لیے کئی برسوں پر محیط تعمیر نو کا ایک منصوبہ شامل ہے، جس کا بیشتر حصہ آٹھ ماہ کی اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکا ہے۔ اس مرحلے میں غزہ میں اس وقت تک باقی رہ جانے والے کسی بھی یرغمال کی باقیا ت کی واپسی کا بندو بست کیا جائے گا ۔
غزہ جنگ کے اثرات
7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس کے عسکریت پسندوں نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنایا، جن میں سے 116 فلسطینی سرزمین میں موجود ہیں، جن میں سے 41 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائی میں اب تک 37,200 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جو یہ وضاحت نہیں کرتی کہ ان میں سے کتنے شہری اور کتنے جنگجو تھے۔