فرزانہ کی پرعزم جدوجہد ۔ الماس بلوچ

309

فرزانہ کی پرعزم جدوجہد
تحریر: الماس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے گلی گلی اور کوچے کوچے میں گونجنے والی فرزانہ رودینی کی آواز سیف اللہ رودینی کو بازیاب کرو بازیاب کرو۔

فرزانہ رودینی جس کا تعلق ضلع سوراب سے ہے۔ وہ کبھی سوراب سے باہر دوسرے شہر اکیلی سفر پر نہیں نکلی تھی۔ لیکن فرزانہ رودینی اپنے بھائی سیف اللہ رودینی کے لئے ہر چوک ہر روڈ پہ ہونے والی ریلیوں، احتجاجوں اور دھرنوں میں شامل ہونے کے لئےاپنے علاقے سوراب سے اکیلی سفر کرکے پہنچتی ہے کہ میری آواز اس ریاست کے دیوانوں تک پہنچ سکے۔ اور میرا بھائی سیف اللہ بازیاب ہو کر گھر پہنچ جائے۔ بقول فرزانہ رودینی کہ اس کا بھائی سیف الله پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایک ملازم تھا جو اپنے فیملی کا واحد سہارا تھا۔ اور اپنے فیملی کو سنبھال رہا تھا۔ ان کا والد دونوں آنکھوں سے مکمل طور پر معذور تھا۔

2023 کو جب کیچ سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا گیا تو فرزانہ رودینی جس کا بھائی سیف الله رودینی اس ریاست کے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں سہہ رہا ہے، اس قافلے کو اپنے سر زمین سوراب میں اپنے بلوچ ماؤں، بہنوں اور بھائیوں کا استقبال کیا انھیں دل سے خوش آمدید کہا اپنے بہنوں کا حوصلہ بلند کرتے ہوئے انھیں شال پہنایا۔ فرزانہ رودینی جس کی ماں اور والد آنکھوں سے مکمل طور پر معذور اپنے بیٹے سیف اللہ کا راہ تکتے تکتے اس دنیا سے اسی درد اور انتظار کے ساتھ ہمیشہ کیلئے رخصت ہوچکے ہیں۔

لیکن فرزانہ کبھی نہیں ٹوٹی نہ ہمت ہاری۔ فرزانہ نے جس لونگ مارچ کے قافلے کو اپنے سرزمین میں خوش آمدید کہا اسی قافلے میں شامل ہوکر اپنے دل کے ٹکڑے سیف الله رودینی کے لئے اپنی آواز بلند کرتی گئی۔سوراب سے کلات ،کلات سے مستونگ اور مستونگ سے شال پہنچ گئی۔ جہاں جہاں یہ لونگ مارچ رک کر احتجاج کرتا تو فرزانہ رودینی اپنے بھائی سیف الله رودینی کی تصویر کو سینے سے لگا کر ، آنکھوں پہ رکھ کر اور بہت پیار سے اس کو چوم کر اسٹیج پہ جاتی اپنے بھائی کے لئے اس ریاست سے اپیل کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر میرا بھائی گنہگا ر ہے تو آپ کی عدالتیں کہاں ہے؟ آپ کا ایک اسلامی جمہوریہ ریاست ہے تو آپ کا آئین کہاں ہے؟ کس آئین کے تحت آپ نے میرے بھائی کو 11سال سے اپنے اذیت خانوں میں رکھا ہے۔

یہی فرزانہ رودینی جو شال سے اسلام آباد روانہ ہونے والے مارچ میں شامل تھی اور اسلام آباد پہنچ کر وہ اس ریاست کے ظلم، ڈنڈے، مارپیٹ اور واٹر کینن ہر جبر کو برداشت کر کے واپس اسی قافلے کے ساتھ اپنے سر زمین بلوچستان آئی۔ نہ اس نے ہمت ہاری تھی نہ اس کا حوصلہ ٹوٹا تھا۔ وہ اکثر لوگوں سے ملتی اپنے بھائی سیف اللہ کی باتیں کرتی تھی کہ اس کے سات بھائیوں میں سے سیف اللہ فرزانہ کا بھائی نہیں تھا بلکہ اس کا بہترین دوست تھا ایک ماں کی طرح فرزانہ کو سنبھالتا تھا۔وہ بہت خیال رکھتا تھا اپنے سب بہن بھائیوں کا. وہ اپنے بھائی سیف الله کے بارے میں بات کرتے کرتے اپنے آنسوؤں کو اپنے آنکھوں سے گرنے نہیں دے رہی تھی۔ گلہ خشک ہو رہا تھا اس کا وہ کہتی کہ میرا بھائی بہت مہربان تھا۔ میرا بھائی سیف اللہ چاہتا تھا کہ میں تعلیم حاصل کروں۔

وہ اکثر سیف الله کا یہ قصہ یاد کرتی کہ میں ایک دن اسکول گئی تو میرے جوتے ٹوٹے ہوئے تھے، ٹیچر نے بہت ڈانٹا تو میں گھر گئی میں بہت روئی اپنے امی سے کہا کہ میں کل سکول نہیں جاؤں گی۔ آج ٹیچر نے مجھے ڈانٹا ہے۔ امی نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا کہ میں کل تجھے جوتے دلا دوں گی۔ اگلے دن جب فرزانہ سکول کے لئے تیار ہو کے نکلی تو وہی ٹوٹے ہوۓ جوتوں کو پاؤں میں ڈالا۔ جب سکول کے گیٹ پہ پہنچی تو اس کا بھائی سیف الله اس کے لئے نئے جوتے خرید کر سکول کے گیٹ پہ اپنی شہزادی جیسی بہن کا انتظار کر رہا تھا۔ تو سیف الله نے اپنے بہن فرزانہ کےپیروں میں جو تے پہنایا اور پرانے جوتے پلاسٹک میں ڈال کر گھر لایا۔

کل جس بہن کو سیف اللہ نے شہزادی کی طرح رکھا تھا. آج اسی بہن کے سب خواب ادھورے رہ گۓ ہیں۔ بقول فرزانہ جب 22/9/2013 کو سیف الله رودینی کو اس ریاست نے جبری طور پر لاپتہ کیا تب سے ہمارا پورا خاندان 11 سال سے اس درد اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ میرے سب خواب ادھورے رہ گئے۔میراتعلیم ادھورا رہ گیا۔ میں اپنے تعلیم کو آگے جاری نہیں رکھ سکا۔کیونکہ ہمارے پورے خاندان کا واحد سہارا سیف اللہ جان تھا۔ میں آج بھی اپنے بھائی سیف الله کے انتظار میں ہوں۔ میرا بھائی آۓگا۔
نہ میں تھکی ہوں ،نہ ہاری ہوں اور نہ میں ٹوٹی ہوں کیونکہ یہ حوصلہ اور ہمت سیف الله نے مجھے دیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔