طالب علم بہادر بشیر کے عدم بازیابی کی صورت میں احتجاج کا راستہ اپنائینگے – بلوچ طلباء کراچی

110

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کا سب سے زیادہ نشانہ نوجوان اور طلبا بن رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایسے دن کم گزرتے ہیں کہ طالب علموں کو یونیورسٹی میں ہراساں نہ کی جاتی ہو، ہاسٹلوں سے دن دہاڑے سکیورٹی فورسز کے اہلکار طالب علموں کو جبری طور پر لاپتہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین اور اقوام متحدہ کے کنونشن میں واضح ہے کہ جبری گمشدگی سے شہریوں کو محفوظ رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جبکہ پاکستان کے سپریم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ نے احکامات دیئے کہ لوگوں کو جبری گمشدہ نہ کیا جائے بلکہ لوگوں کو گرفتاری کرنے کے لئے قانونی تقاضے پورے کئے جائیں لیکن بلوچستان میں بین لقوامی قانون اور پاکستان کے آئین کی توہین کی جارہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایسے بھی کئی واقعات ہوئے ہیں کہ ایک شخص کئی دفعہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ہمہیں ایسے واقعات بھی ملیں گے کہ جب نوجوان کئی سالوں اور مہینے کیے بعد بازیاب ہوتے ہیں تو نفسیاتی مریض بن چکے ہوتے ہیں اور ایسے کیسز بھی ہیں کہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے نوجوانوں نے خودکشی کر کے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کردیئے ہیں۔ جن خاندانوں کے عزیز جبری گمشدہ کردئے گئے وہ ذہنی ازیت کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے ریاست جبری گمشدگیوں کو ایک ہتیھار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ حالیہ دور میں سی ٹی ڈی جیسے ادارے کے ذریعے جبری گمشدہ بلوچوں کو فیک انکاؤنٹر کے ذریعے قتل کیا جارہا ہے ۔ جس کی سبب جبری گمشدہ افراد کے لواحقین سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالب علموں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا ان کے مستقبل کو برباد کرنا ہے۔ بلوچستان میں ایسے دن کم گزرتے ہیں جب بلوچ طلباء کو ہراساں نہ کیا گیا ہو، بلوچ طلبا مسلسل جبری گمشدہ کئے جارہے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی سے جبری گمشدہ طلباء سہیل اور فصیح اب تک بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
سہیل اور فصیح کو دو ہزار اکیس میں بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا اور بلوچستان کے تمام طلباء تنظیموں نے احتجاج کا راستہ اپنا کر بلوچستان یونیورسٹی کو کئی مہینوں تک بند رکھا لیکن وہ عقوبت خانوں سے بازیاب نہ ہوسکے۔

‘راولپنڈی ایگرکلچر یونیورسٹی سے فیروز بلوچ کو دو ہزار بائیس میں جبری لاپتہ کیا گیا جو اب بھی بازیاب نہ ہوسکے ہیں ۔ تربت یونیورسٹی سے نعیم رحمت کو دو ہزار بائیس کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اب بھی زندانوں میں مقید ہیں۔ انیس بلوچ جو خضدار کا رہاشی ہے اور بہاالدیں زکریا یونیورسٹی سے گریجویٹ کرچکے ہیں، انہیں چار جون کو جبری گمشدہ کیا گیا اور اور ابھی بھی بازیاب نہیں ہوئے ہے۔ انیس بلوچ کو سی ٹی ڈی کے حوالے کرکے باقی بلوچوں کی طرح فیک الزامات لگا گیا ہے جس کی وجہ سے انیس بلوچ کے لواحقین سمیت ہم کو ڈر ہے کہ اس کو باقی بلوچوں کی طرح فیک انکاؤنٹر میں مارا نا جائے۔’

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سینکڑوں طلباء سالوں سے جبری گمشدہ ہیں ۔ طلباء کی جبری گمشدگی کا تسلسل جاری ہے، ضلع گوادر کے تحصیل پسنی سے کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے طالب علم بہادر ولد بشیر احمد کو 23 جون دو ہزار چوبیس کو پسنی میں سکیورٹی فورسز نے جبری گمشدہ کر دیا ہے۔ بہادر بشیر کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جو عید کی چھٹیوں کے لئے اپنے گھر پسنی آیا تھا۔ چوبیس جون کو بہادر بلوچ کے لواحقین نے پسنی زیرو پوائنٹ پر احتجاج کیا اور مکران کوسٹل ہائی وے بلاک کو کئی گھنٹوں بلاک کیے رکھا، جس کی بعد انتظامیہ کی جانب سے یقین دہائی کرائی گئی کے ایک دن بعد بہادر کو باحفاظت بازیاب کیا جائے گا لیکن چار دن گزرنے کے باجود بہادر بلوچ بازیاب نہ ہوسکے ہیں۔ چھبیس جون بہادر بلوچ کے لواحقین مکران کوسٹل ہائی وے پر دھرنہ دئے بیٹھے ہیں، اُن کے لواحقین کو سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کا نشانا بنایا گیا ہے اور انھیں مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے۔

‘ہم کراچی کے بلوچ طلباء، بہادر بلوچ کی خاندان سے اظہار یکجہتی کرنے آئے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم بہادر ولد بشیر احمد کو باحفاظت بازیاب کیا جائے، اگر بہادر ولد بشیر احمد کو باحفاظت بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم کراچی کے بلوچ طلباء احتجاج کا آغاز کریں گے۔