سمعیہ سے سمو تک کا سفر – خالصہ بلوچ

845

سمعیہ سے سمو تک کا سفر

تحریر: خالصہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا وادیِ توتک جہاں ۱۹۹۷ کے دن عبیداللہ قلندرانی کے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام کائنات رکھا گیا کچھ وقت بعد کائنات کا نام بدل کر سمعیہ رکھ دیا گیا۔ سمعیہ کو گھر میں سب چمّان اور چمّانی پکارا کرتے تھے۔ والدین کی پہلی اولاد سمعیہ کے بختاور قدموں نے پورے گھر کا ماحول خوشحال کردیا۔ سمعیہ جسے ماں باپ صرف اپنی گھر کی شہزادی سمجھتے تھے لیکن وہ تو وطن زادی بن کر پیدا ہوئی تھی، وقت گذرتا گیا سمعیہ انقلاب کے سائے پلتی رہی، ۲۰۱۱ کا سال تھا ہر عام دن کی طرح جب لوگ صبح نماز کیلئے اُٹھے تو ہر طرف عجیب سا دُھندلا موسم چھایا ہوا تھا یہ وہ دن تا جب سمعیہ کے خاندان پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹا، گھر میں رکھے ہوئے لاشیں دشمن کا ہر قہر سمعیہ کے سینے میں قید ہوکر دشمن کی نفرت کا آغاز ہوگیا معصوم اور خوش مزاج بہن سمعیہ بمبار بنے گی یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا۔

پھر ایک وقت آیا جب سمعیہ اور ریحان ایک رشتے میں بندھے اور ایک دوسرے کے ہم سفر بننے جا رہے تھے۔ ریحان وہ نوجوان تھا جو اپنی قوم کی غلامی سے اچھی طرح واقف تھا اپنی محبت اور خواہشات کو قربان کرکے ریحان نے اُس قربانی کا فیصلہ کیا جس نے پورے بلوچ آزادی کی تحریک کو ہی بدل دیا۔ وہ جنگ جو سالوں سے ایک ہی رنگ میں تھا اُسے ریحان نے تحریک بخشی، ریحان وہ داستان ہے جسے بلوچ کا ہر فرد ہر دور میں فخر سے یاد کرے گا۔ میں اس لائق نہیں کہ ریحان کی اماں یاسمین اور استاد اسلم کے قربانی کو بیان کرسکوں۔ ریحان ہم سب کا راہشون ہے اسی طرح سمعیہ کا راہشون بھی ریحان تھا قربانی کا جذبہ سمعیہ کو ریحان نے دیا۔ ریحان کے شہادت کے ۱ میہنے بعد ۲۰۱۸ کے ہی سال سمعیہ نے بھی خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اسلم کو پیغام بھیج کر اپنا نام فدائین کے فہرست میں شامل کرلیا اور ۵ سال تک صبر سے اپنی باری کا انتظار کیا۔

وہ بہت زندہ دل تھی ہر وقت سینگار میں نظر آتی اپنا خیال رکھتی ہمیشہ خوش نظر آتی ایک بار میں نے پوچھا تمہیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ تم نے ریحان کو کھویا ہے۔ سمعیہ نے مسکراہٹ کیساتھ جواب میں کہا میں نے ریحان کو نہیں کھویا ہے وہ ہر وقت میرے ساتھ ہے میرے پاس ہے۔ ریحان میرے سوچ میں میرے خیالوں میں آج بھی زندہ ہے۔ ریحان نے جاتے جاتے میری زندگی کو عظیم مقصد دیا میں نے کچھ نہیں کھویا ہے میری زندگی بے مقصد نہیں ہے میری خوشی اور زندہ دلی کا راز میرا مقصد ہے جو مجھے اس دنیا کی ہر چیز سے عزیز ہے وہ مقصد جسے پانے کا میں سالوں سے انتظار کر رہی ہوں میں اپنی زندگی سے نہ مایوس ہوں نا بیزار ہوں میں نے بخوشی یہ راستہ چنا ہے۔

سمعیہ آپ نے اپنی زندگی کو ہم بہن بھائیوں کے لیے ایک مثال بنایا ہم سب خوش نصیب ہیں کہ آپ کے ساتھ پلے بڑے آپ نے ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔ آپ کی یادیں بھی ہمارے لئے فخر کا باعث ہیں۔ میں نے کبھی آپ کے لئے دُکھ کے آنسو نہیں بہائے، بہت خوش نصیب ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے قریبی دوستوں میں سے ایک سمجھا۔

آخری گفتگو میں میں نے کہا سمعیہ بہن خوابوں میں آنا بھول نہ جانا۔ سمعیہ نے ہنس کر جواب دیا میں نہیں جانتی وہ کیسی دنیا ہوگی پتا نہیں وہاں لوگ اپنے بس میں ہونگے یا نہیں۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ اس ماں کو چھوڑ کر دوسری ماں کے گود میں سونے جارہی ہوں۔ جس ماں کو میری ضرورت ہے میرے لہو کی اس سرزمین کو ضرورت ہے۔ اپنے خون کے ہر قطرے کو سرزمین پر قربان کروں۔

پھر وہ وقت بھی آگیا جب ہم رخصت ہو رہے تھے سمعیہ جیسے ہواؤں میں اُڑ رہی تھی۔ کسی چیز کی پروا ہی نہیں تھی اسے نہ زندگی کی نہ اپنوں کی بس بے صبری سے ایک ہی چیز کا انتظار کر رہی تھی اپنی منزل کی۔ میں غور سے دیکھ رہی تھی اُن بے خوف آنکھوں کو جن میں نہ پچتاوا دیکھا نہ ڈر، میں نے دیکھا کس طرح ایک پروانہ خود کو آگ میں خود راکھ کر دیتی ہے اور روشنی پہ فنا ہوجاتی ہے۔ اس دن سمجھ میں آیا وطن زادے واقعی میں دیوانے ہوتے ہیں۔ میں غور سے اپنی پیاری بہن کو دیکھ رہی تھی اس معصوم چہرے کو جسے میں آخری بار دیکھ رہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہر چیز آخری لگ رہی تھی وہ مختصر گفتگو جو آخری تھی وہ عکس جو ہم نے آخری بار ساتھ میں لیا وہ آخری بار گلے لگنا۔ وہ دروازے سے نکل رہی تھی میں دیکھ رہی تھی کہ شاہد آخری بار مُڑ کر مجھے دیکھے گی لیکن وہ تو اس دن ہم سب کو چھوڑ کر جاچکی تھی جب اُس نے فدائی کا فیصلہ کیا تھا وہ ہمارے ساتھ ہوکر بھی ہمارے ساتھ نہیں تھی۔

سمعیہ آپ کو رخصت کرتے وقت میں نے اس دن کو یاد کیا اس وقت کو جب اماں یاسمین نے اپنے بیٹے ریحان کو رخصت کر کے وطن پہ قربان ہونے کے لئے روانہ کیا اور جب ماہو نم آنکھوں کے ساتھ اپنی والدہ شاری کو آخری بار گلے لگا رہی تھی۔

پھر سمعیہ اپنی منزل کے لئے روانہ ہوگئی اور میری آنکھیں منتظر تھی سمعیہ کی کامیابی کی خبر سننے کے لئے وہ آخری سانس گن رہی تھی دیوانوں کی طرح تربت کی کڑکتی گرمی میں بیٹھی تھی سڑک پہ اپنی منزل کو قریب سے دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد خبر ملی سمعیہ کامیاب ہوگئی اُس دن ۵ سالوں کا انتظار ختم ہوگیا سمعیہ وطن کی سمو بن گئی سمعیہ سے سمو تک کا لمبا سفر ختم ہوگیا۔

آج بھی ہم بہن بھائی آپ کے بغیر ادھورے لگتے ہیں وہ آنگن جس میں ہم دونوں ساتھ کھیلتے تھے وہاں آج بھی آپ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے وہ دوستوں کا گروپ اب بھی آپ کی کمی کو محسوس کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔