مشکے کے رہائشی جبری لاپتہ چنگیز بلوچ کی بہن حفظہ بلوچ نے کہا ہے کہ میرے بھائی کو 11 جنوری 2014 خضدار کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیاں انسانیت کے خلاف جرم ہے اور یہ جرم پاکستانی فورسز مسلسل بلوچستان میں کر رہی ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی انسانیت کے خلاف اس جرم میں شراکت داری کے مترادف ہے۔ ذاکر مجید بلوچ 8 جون 2009 سے لاپتہ ہیں، ان کی گمشدگی کو 15 سال گزر چکے ہیں لیکن وہ تاحال لاپتہ ہیں، ان کی بوڑھی والدہ اپنی بیماری اور بڑھاپے کے باوجود اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے لڑ رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج 8 جون کو ذاکر مجید کی والدہ شام 4 بجے شال پریس کلب کے باہر اپنے بیٹے کی طویل گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کریں گی۔ مظاہرے میں شرکت کرکے ذاکر مجید کی والدہ کی آواز بنیں۔ اس کے علاوہ 8 جون کو بلوچ مسنگ پرسنز ڈے کے حوالے سے بی ایس او آزاد اور بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے سوشل میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے گی، اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔