بلوچستان اکیڈمی کے گرانٹ کو 95فیصد گھٹاکر ایک کروڑ سے پانچ لاکھ کرنا بلوچی زبان وادب کیساتھ زیادتی ہے۔
بلوچستان اکیڈمی کیچ کےبانی پروفیسر غنی پرواز،سیکرٹری جنرل شگراللہ یوسف،وائس چیئرمین عارف عزیز،ودیگر عہدیداروں نے پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچی زبان کے ادبی اداروں کے گرانٹ کو حکومت بلوچستان کی طرف سے کم کرنے کو زبان دشمنی قرار دیتے ہوئے بحال کرنے کامطالبہ کیا۔
انہوں نے کہاکہ ادبی ادارے زبان و قوم کیلئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، بلوچستان کے ادبی ادارے پہلے سے مشکلات کے شکار ہیں حکومت گرانٹ میں اضافہ کے بجائے کم کرکے ادبی اداروں کو بند کرنے پر تلی ہے جو قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جن اداروں کے گرانٹ میں اضافہ کیاگیاہے ہمیں اعتراض نہیں بلکہ انہیں اضافہ کرنا چاہیے لیکن بلوچی ادبی اداروں کے گرانٹ میں کم کرنا ہمیں قبول نہیں کیونکہ بلوچی زبان پہلے سے مشکلات کا شکارہے اس مہنگائی میں ادبی ادارے زبان وادب کے لیے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اکیڈمی کی عمر تقریباً 41سال سے جو کاروان لبزانکی ادارہ کا تسلسل ہے، بلوچستان اکیڈمی کے گرانٹ کو گزشتہ سال ایک کروڑ کیا گیا اب دوبارہ اسے گھٹاکر کم کرنا زیادتی ہے اس سے بلوچی زبان کے اداروں اور عوام میں مزید اضطراب وبے چینی پیدا ہوگا۔
بلوچی زبان کے ادبی اداروں کی کار گردی تسلی بخش ہے حکومت انہیں مزید سپورٹ کرے تاکہ وہ مزید کام کرسکیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی سرکار ہے لیکن سندھ میں وہ سندھی زبان کے اداروں کو سپورٹ کرکے بلوچستان اور بلوچی زبان کے اداروں کے پاؤں پر کلہاڑی سے وار کررہاہے دونوں زبانوں کے ساتھ مختلف رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے کہاکہ عزت اکیڈمی پنجگور کا بجٹ دس لاکھ ہے، اسے مکمل ختم کیا گیا ہے جبکہ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ جو ایک معتبر ادارہ ہے اسکے گرانٹ میں سے تین کروڈ کو ختم کیاگیاہے،حکومت اداروں کی کار کردگی کا جائزہ لے ۔
انہوں نے کہاکہ مذکورہ اداروں نے انتہائی کم وقت میں بےبشمار خدمات سرانجام دیئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔