تربت میں جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاجی ریلی

104

بلیدہ سے جبری لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بدھ کی شام شہہد فدا چوک سے ایک ریلی نکالی اس میں متاثرہ خاندانوں کے افراد کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی ایس او پجار کے کارکنان نے شرکت کی۔

ریلی میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے جنہوں نے لاپتہ افراد کے تصاویر کے ساتھ احتجاجی نعروں پر مبنی بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

ریلی کے شرکا نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نعرہ بازی کرتے ہوئے مختلف سڑکوں پر مارچ کی اور ڈپٹی کمشنر کیچ کی آفس کے سامنے دھرنا گاہ پر جلسہ کیا۔

لاپتہ افراد کے فیملی ممبران نے احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی فرد کو ماورائے عدالت اور قانون غائب کرنا ملک کے قانون کی خلاف ورزی اور شہریوں کے حقوق کی پامالی ہے، ہم جیسے ہزاروں خاندان بلوچستان بھر میں سڑکوں پر سالوں سے خوار پھر رہے ہیں مگر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی انتظامیہ اور عدلیہ سے لے کر پارلیمنٹ سب گونگے اور بہرے بن گئے ہیں اس لیے اس ریاست میں قانون کا راج ختم ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے نوجوانوں سالوں سے زندانوں میں جبر کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے فیملی ممبران کو ان کی خیریت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جارہا ہم نے انصاف کے لیے ہزاروں کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کی، عدلیہ کا در کھٹکھٹا کر دیکھا، وزرا کے پاس گئے اور انتظامیہ سے بارہا ملاقات کی لیکن ہمارے پیارے اس کے باوجود بازیاب نہیں ہوئے بلکہ جبری گمشدگیوں میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ آئے روز کسی نا کسی علاقے سے جبری گمشدگی کی اطلاع آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں نظر آتی جس اداروں کے جو جی میں آئے وہ قانون کو بالائے طاق رکھ کر وہی کر گزرے گا ہم نے بارہا کہا ہے کہ اگر جبری گمشدہ کیے گئے ہمارے پیارے گناہ گار ہیں تو انہیں اپنی ہی عدالتوں میں پیش کرکے سزا ہی دلادیں مگر عدالتوں کے سامنے پیش تو کریں تاکہ ہمیں ان کے متعلق معلومات حاصل ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کی آفس کا گھیراؤ ختم نہیں کریں گے جب تک انہیں لاپتہ افراد کے بارے میں تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا۔