بلوچی و براہوئی زبانوں کے اداروں کے گرانٹس میں کمی گھناؤنا عمل ہے – بی ایس او

94

بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل صمند بلوچ، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری شکور بلوچ و دیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی قوم کے لیے ان کی مادری زبان ان کی بنیادی شناخت ہوتی ہیں۔ دنیا کی ہر قوم زبان کے اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ مادری زبان انسانی، شناخت، تشخص اور کردار سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر وہ زبان جس میں لٹریچر تخلیق پاسکتا ہو، ترسیل علم کے لئے بہترین مانی جاتی ہے۔ جبکہ لٹریچر کا تعلق بھی مادری زبان سے ہی ہوتا ہے۔ لہذا ماہرینِ تعلیم کی رائے میں ذریعہ تعلیم کے لئے مادری زبان سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں زیادہ تر ممالک میں تعلیم مادری زبانوں میں دی جاتی ہے۔ چین میں چینی زبان، جاپان میں جاپانی زبان، جرمنی میں جرمن زبان، فرانس میں فرانسیسی زبان ، انگلینڈ، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ میں انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر ہم تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو دنیا بھر میں قابض کی سب سے پہلے کوشش رہی ہے کہ مقبوضہ قوم کی زبان ان سے چھین لیا جائے۔ ریاست کا یہی رویہ عرصہ دراز سے بلوچ قوم کے ساتھ بھی رہا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے بلوچوں کے مادری زبانوں بلوچی اور براہوئی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے مگر بلوچ قوم اس بنیادی حق سے بھی محروم ہے۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ کٹھ پتلی اور بلوچ دشمن حکومت کے عزائم کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ دنوں حکومت نے مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کیا۔ بجٹ میں بلوچی اور براہوئی زبانوں کی ترویج کے لئے کام کرنے والی اداروں کے گرانٹس میں ستر سے نوے فیصد کمی کیا گیا ہے اور کچھ اداروں کے بجٹ تو مکمل ختم کئے گئے ہیں۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کا گرانٹ پانچ کروڑ سے کم کر کے ایک کروڑ کیا گیا ہے۔ بلوچستان اکیڈمی تربت کے گرانٹس میں بھی نوے فیصد کی کٹوتی کی گئی ہے، بلوچی لبزانکی دیوان، راسکوہ ادبی دیوان، براہوئی ادبی سوسائٹی اور مہر در کے بھی گرانٹس میں یا تو ستر سے پچانوے فیصد کمی کیا گیا ہے یا مکمل ختم کر دیے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے کراچی آرٹس کونسل کے ایک ایونٹ کے لیے دو کروڑ اٹھا کر دیے دئیے اور یہاں تمام اداروں کا فنڈ دس بارہ کروڑ سے زیادہ نہیں بنتا۔ اس پر بھی کٹس لگا دیے گئے۔ کلچر ڈپارٹمنٹس کے فنڈز تو یکسر ختم کر دئیے، جس سے عزت اکیڈمی پنجگور اور گوادر کتب میلہ کے سالانہ فنڈز ختم ہو گئے۔

انہوں نے کہاکہ دوسری جانب پشتو اکیڈمی اور ہزارگی اکیڈمی کے گرانٹس میں اچھا خاصہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں ہم یہ واضح کر دیں کہ پشتو اکیڈمی یا ہزارگی اکیڈمی کے گرانٹس میں اضافہ ہونے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ یہ خوش آئند عمل ہے لیکن ان زبانوں کے گرانٹس میں یکدم اضافہ اور بلوچی و براہوئی کے اداروں کے گرانٹس میں کمی سے لسانی بنیاد پر تعصب تاثر ضرور ملتا ہے۔ اس تمام عمل میں سیکریٹری خزانہ کسی بھی صورت بری الذمہ نہیں ہیں ہمارے اطلاعات کے مطابق سیکریٹری خزانہ نے بجٹ پیش ہونے سے چند دن قبل لسانی تعصب کے بنیاد پر یہ ہیر پھیر کیا ہے۔ ہم آج کے پریس کانفرنس کے توسط سے یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ ہم سیکریٹری خزانہ کے خلاف تمام قانونی راستے اپنائیں گے۔

مزید کہاکہ مقتتدرہ قوتوں کے کٹھ پتلی حکومت بلوچستان اس پورے گھناؤنے عمل میں شریک رہی ہے، وزیر اعلی اور وزیر خزانہ کے ایما پر یہ سب ہوتا رہا ہے اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس عمل سے لاعلم ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان ایک کالونی ہے جس کا بجٹ اصل حکمران بناتے ہیں اور کٹھ پتلی سرکار پیش کرتی ہے۔ ہم آج کے پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے ان فیصلوں کو فی الفور واپس لے کر مذکورہ اداروں کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے بصورتِ دیگر ہم سڑکوں پہ نکلے گے۔