بلوچستان کی بانُک – عزیز سنگھور

332

بلوچستان کی بانُک

تحریر: عزیز سنگھور

دی بلوچستان پوسٹ

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ لاپتہ افراد کا قافلہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس بلوچستان لوٹنے کے باوجود بھی حکومت سے جنگ جیت گئے۔ پاکستان نے ان کی بات نہیں سنی لیکن آج پوری دنیا نہ صرف انہیں سن رہی ہے بلکہ انہیں انسانی حقوق کے ایوارڈ سے بھی نواز رہی ہے۔ بلوچستان کی دونوں “بانُکوں” (شہزادیوں) نے اپنی سیاسی بصیرت اور ہمت و جرات سے ہاری ہوئی جنگ کو جیت میں تبدیل کردیا۔ اس عمل کو”سیاسی حکمت عملی” کہتے ہیں۔ اس غیر سیاسی حکومت کے سامنے “سیاست بصیرت” کی بات کرنا “اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچنے کےمترادف ہوگا”۔

دسمبر 2023 کے تیسرے ہفتے لاپتہ افراد کا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہوا۔ جہاں اسلام آباد پولیس نے ان پر وحشیانہ تشدد کیا۔ جس سے متعدد خواتین اور بچے شدید زخمی ہوئے جبکہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔
غیر مہذب پولیس نے بلوچ روایات کو طاقت کے ذریعے روند ڈالا۔ بلوچی “دوپٹہ” خواتین کے سروں سے گن پوائنٹ کے ذریعے اتارا گیا۔ انہیں بالوں سے گھسیٹا گیا اور زبردستی پولیس موبائلوں میں ڈالا گیا۔ انہیں مختلف تھانوں میں قید رکھا گیا۔

مئی 2024 کے آخری ہفتے کو مہذب حکمرانوں اور غیر مہذب حکمران کے درمیان ایک واضع فرق سامنے آیا۔ جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ یورپ پہنچی تو ان کا استقبال کیاگیا۔ انہیں عزت دی گئی انہیں سناگیا۔

آج تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچ تحریک کو دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے اور دنیا بھی مجبور ہے کہ وہ بلوچ سماج میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر مزید خاموش نہ رہے کیونکہ یورپ کی مزید خاموشی ان کی جمہوریت پر بدنما داغ ثابت ہوسکتی ہے۔ انہیں اپنی خاموشی توڑنا پڑی۔ یورپ نے یہ خاموشی اس وقت توڑی جب اسلام آباد میں پنجابی پولیس بلوچ خواتین پر تشدد کررہی تھی۔ اس موقع پر اسلام آباد میں مقیم یورپی یونین کی سفیر ریناکوئنک نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل”ایکس” پر اسلام آباد پولیس کے رویے کی نا صرف مذمت کی بلکہ بلوچوں پر تشدد کو ایک غیر انسانی عمل قراردیا۔ یورپی سفیر کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی عمل کی ضمانت عالمی شہری حقوق کا قانون بھی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی قانون کا احترام کرے اور شہریوں کو اپنے سیاسی عمل کرنے کا موقع فراہم کرے۔ اس وقت یورپی یونین کی سفیر ریناکوئنک کا یہ بیان اسلام آباد سرکار کے لئے کوئی معمولی بات تھی لیکن آج یہ بیان غیرمعمولی بیان میں تبدیل ہوچکا ہے۔

آج بلوچستان کی شہزادیوں (بیٹیوں) کو دنیا سننے پر مجبور ہوگئی ہے۔ یہ کامیابی بلوچ خواتین نے اپنی طویل سیاسی جدوجہد سے حاصل کی ہے۔

آئرلینڈ کے مرکزی شہر ڈبلن میں منعقدہ تقریب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ کو فرنٹ لائن ڈیفنڈرز ایوارڈ 2024 سے نوازا گیا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سمی دین کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک آخری گمشدہ شخص کو رہائی نہیں ملے گی۔

اسی طرح ناروے میں انسانی حقوق کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنس سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کیا اور بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور اجتماعی قبروں کی دریافت کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی۔ اس کانفرنس میں 44 ممالک سے انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔ ناروے اپنی دیرینہ جمہوری روایات اور امن کے نوبل انعام کے لیے مشہور ہے۔

سمی دین اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ یورپی ممالک کی جانب سے ملنے والی اعزازات کے حقدار ہیں۔ دونوں کوئی “وراثتی” سیاستدان نہیں ہیں بلکہ انہیں ریاستی جبر نے یہ مقام دیا ہے کسی کا والد لاپتہ ہے توکسی کے والد کی مسخ شدہ لاش ملی ہے۔

سمی دین بلوچ کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کے اسپتال سے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کی انتھک کوششوں، پولیس میں مقدمہ درج کرنے اور بلوچستان ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست کے باوجود ان کے کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ جو تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کے والد کے اغوا کے بعد مشکے میں ان کے گھر کو آگ لگادی گئی۔ سمی کی ماں نے اپنی جان بچاکر کراچی میں پناہ لی۔

ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ کے والد میر عبدالغفار لانگو ٹریڈیونین رہنماء اور بائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والے سیاسی رہنماء تھے۔ وہ واپڈا میں ملازمت بھی کرتے تھے۔ ان کا آبائی ضلع قلات ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میر عبدالغفار لانگو اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 2006 کو پہلی مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے جس کے کچھ عرصے بعد وہ واپس آگئے۔ پھر وہ 2009 میں جبری طور پرلاپتہ ہوئے اور 2011 میں ان کی مسخ شدہ لاش ملی۔
بلوچ تحریک کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ بلوچ خواتین بھوک ہڑتال، احتجاجی مظاہرے اور لانگ مارچ میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہیں۔ یہ موجودہ جاری بلوچ تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تحریک میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ نظریاتی تحریک بن چکی ہے۔ یہ تنظیم جاتی پراستوار ایک سائنسی تحریک ہوچکی ہے۔ جو ایک جنس پر مشتمل نہیں ہے بلکہ مرد و عورت یکمشت ہوچکے ہیں اور نہ ہی یہ تحریک کسی ایک شخص کے گرد گھومتی ہےبلکہ پوری تنظیمی ڈھانچے کے طورپر چل رہی ہے۔ اس جنگ نے ایک دوسری نسل پیدا کی ہے۔ اب یہ نسل عورت کی شکل میں بھی موجود ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سمی دین بلوچ، ڈاکٹر شلی بلوچ، آمنہ بلوچ، سیما بلوچ، سعدیہ بلوچ سمیت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ بیٹیاں اور بلوچ طالبات سرگرم ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچ بیٹیوں کے شانہ بشانہ ان کے بزرگ بھی ان کے کندھا بہ کندھا ہیں۔ جن میں سہرفہرست واجہ صبغت اللہ عرف شاہ جی اوردیگر شامل ہیں۔
بلوچ قوم کو اپنی بیٹیوں پر فخر ہے۔ بلوچ معاشرہ ایک ارتقائی عمل سے گزررہا ہے۔ اب اس ارتقائی عمل کو کوئی بھی نہیں روک سکتا ہے بلکہ اب “مرد کا بچہ” کے محاورہ کی جگہ اب “عورت کی بچی” لے چکی ہے۔ اب ہر کسی کو عورت کے وجود اور حیثیت کو ماننا پڑیگا کیونکہ عورت نے مردوں کو جنم دیاہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ نہ ماننے والا اپنے وجود سے انکاری تصور کیا جائیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔