بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے انسانی حقوق ادارے پانک نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ پانک ہر مہینے بلوچستان میں مکمل کوائف کے ساتھ انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کرتی ہے۔مئی 2024 کی رپورٹ میں جبری گمشدگیوں کی تفصیلات کے علاوہ ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگان پر جعلی مقدمات اور روڈ حادثات کے موضوعات شامل کی گئی ہیں۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فورسز اور اس سے منسلک ڈیتھ اسکواڈ کے آلہ کاروں نے تین افراد کو قتل کیا۔جن کے نام زاہد نیاز سکنہ کندری مشکے ، بالاچ نظیر احمد سکنہ نوشکے اور یارمحمد جلال سکنہ نصیر آباد بتائے گئے ہیں۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور کراچی سے 90 افراد کو پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جبکہ 19 جبری گمشدگان کو ٹارچر سیلز سے رہا کیا گیا ، ان کی غیرقانونی گرفتاری ، حراست اور ان پر کیے جانے والے تشدد کے بارے میں ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی اور نہ ہی جبری گمشدگی کے شکار افراد کی ذہنی اور جسمانی صحت کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں۔
پانک کی طرف سے کہا گیا ہے مئی 2024 میں کیچ سے 22 ، گوادر سے 15 ، آواران سے 9 ، ڈیرہ بگٹی سے 29 ، مچ سے 2 ، نصیر آباد سے 2 ، خضدار سے 2 ، شال سے 3 ، ڈیرہ غازی خان سے 2 ، نوشکے سے 2 ، پنجگور سے ایک اور کراچی سے ایک شخص کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا۔
’ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگیوں کے تمام کیسز پر پاکستانی فورسز کا عدالتی سطح پر محاسبہ کیا جائے۔‘
پانک نے جبری گمشدہ افراد کے خلاف جعلی مقدمات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد ان پر جعلی مقدمات قائم کر رہی ہے جو متاثرین اور ان کے خاندان کے لیے اذیت کا باعث ہیں۔
پانک کے مطابق ’ یہ عمل ناانصافی ہے ، جسے متاثرین بھگت رہے ہیں۔‘
مئی میں تین جبری لاپتہ افراد کی جعلی مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی گئی۔جن میں نیاز عبداللہ اور بشیر عبدالغنی شامل ہیں جنھیں سربندن ، گوادر میں سات افراد کے قتل کے الزام میں ملوث کرکے پولیس کے حوالے کیا گیا جبکہ مذکورہ افراد قبل ازیں ریاستی فورسز کی تحویل میں تھے۔
اسی طرح فیصل سوالی کو بھی جبری گمشدہ کرنے کے بعد دہشت گردی کے الزامات کے تحت پولیس کے حوالے کیا گیا۔
’ یہ طریقہ ہائے کار جبری گمشدگی کے شکار افراد کو مزید متاثر کرتا ہے ، قانون کی حکمرانی اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا باعث ہے۔‘
پانک نے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات پر تشویش ظاہر کی ہے ، بلوچستان میں ناقص روڈ ، سڑکوں پر حفاظتی اقدامات ، سڑکوں پر حفاظتی نکتہ نظر سے نشانات اور ہدایات کی عدم موجودگی اور سنگل لائن ہائی وے بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ ہیں۔
’شاہراؤں کی تعمیر اور مرمت پر سرمایہ گذاری کی جائے ، تاکہ مزید حادثات اور اموات کو روکا جاسکے۔‘
پانک نے عالمی اداروں کے کردار کو بہتر بنانے کے لیے اپنے مطالبے کو دہرایا ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مانیٹرنگ اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی رپورٹنگ کے نتیجے میں ان سنگین معاملات میں بہتری آسکتی ہے۔ یہ عمل متاثرین اور ان کے خاندان کو انصاف کی فراہمی میں یقین دہانی کا باعث ہوگا۔