براہوئی زبان میں تقریری مقابلہ؛ ایک تنقیدی جائزہ ۔ ثاقیہ سعید

200

براہوئی زبان میں تقریری مقابلہ؛ ایک تنقیدی جائزہ

تحریر: ثاقبہ سعید
دی بلوچستان پوسٹ

مورخہ 8 جون بروز ہفتہ کو ایلمنٹری کالج قلات میں براہوٸی اکیڈمی کی جانب سے ایک تقریری مقابلہ بعنوان ” لمٸ زبان ٹی تعلیم ننا حقے“ منعقد ہوا۔اس تقریری مقابلے میں سکول اور کالج سطح کے اسٹوڈنٹس نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پروگرام میں قلات کے ہر کالج سے 2 طالب علم اور ہر اسکول سے ایک طالب علم نے مقابلےمیں حصہ لیا۔

پروگرام کا آغاز گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج قلات کے پرنسپل جناب ثناء اللہ ثنا کے صدارت میں ھوا۔ منصب پر فائز 3 رکنی ججز کا ٹیم بھی تشکیل دیا جا چکا تھا جن میں پروفیسر محمد صدیق ,براہوٸی زبان کے شاعر رحیم صیاد اور قلمکار عابد سلام شامل تھے۔

پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ھوا جس کے بعد اسٹوڈنٹس نے پرجوش اور ولولہ انگیزی سے اپنے اپنے تقریروں سے سامعین کے دھیان کو اپنے طرف قائل کرنے ان کو عنوان سے آگاہ کرنے اور داد وصول کرنے میں کامیاب ھوئے۔ اس پروگرام میں طلبا اور طالبات کی شرکت اور ولولے کو دیکھ کر خوشی کا احساس ہوا مگر چند ناقابل فراموش رویوں , کوتاہیوں اور ناانصافی پر مبنی حرکات کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا یوں ایلیمنڑی کالج قلات اور محکمہ تعلیم جیسے غیر متنازعہ اور غیر جانبدار اداروں پر بھی سوال اٹھانے کو دل چاہا۔مگر سب سے بدتر اور مایوس کن عمل میرٹ کی پامالی تھی۔

کالج کے ایک اسٹوڈنٹ کی حیثت سے میں نے نے بھی شرکت کی تاکہ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اور حق پر کچھ سننے اور سمجھنے کا موقع مل سکے۔ حسب معمول ہر پروگرام کے منتظمین کیطرف سے کمی کوتاہی رہتی ھے اسی طرح اس تقریری مقابلہ میں بہت سارے کمی دیکھنے کو سامنے آ گئے جن کو مختصرا میں اس طرح بیان کرتی ہوں :

1۔جگہ کی کمی جہاں کافی طلبا و طالبات کو پروگرام میں جگہ اور کرسیوں کی کمی کی وجہ سے کھڑا رہناپڑا۔
2۔ منتظمین کی غیر زمہ داری جہاں اسٹیج کو سنبھالنے بچوں بچیوں کو مائک تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہا۔
3۔ تیسری اور اہم ناقصی ججز کا میرٹ کو پامال کرنا اور ناقابل قبول و یک طرفہ فیصلہ کرنا جو مستحق محنت کش طالب عملوں کیساتھ ناانصافی تھی۔ ججز کا ایسے طلبا و طالبات کو انعام کا مستحق قرار دینا جن میں براہوئی اکیڈمی قلات کے اہم ارکان کی بیٹی، بھاٸی اور رشتہ دار شامل تھے۔
4. عموما ان تمام بچوں اور بچیوں کو بلکل نظر انداز کردیاگیا جنہوں نے موضوع کی مناسبت سے تقاریر کی اور براہوٸی اور بلوچی زبان کی اہمیت اور اس میں تعلیم پر زور دیا۔
5. پروگرام کے ججز کا براہوئی اکیڈمی کا باقاعدہ ممبر ھونا اور تو اور وہ طلبا جو انعام کے لئے نامزد ہوئے ان میں 70 فیصد ایسے طلبا جو منتظمین کے اپنے رشتہ دار یا بھاٸی اور بیٹی وغیرہ تھے۔
6.مقابلے میں ایک اور معیوب حرکت کہ جب کوئی طلبا ذیل اشعار ( زمانہ ٹی اندا نشانے ننا، براہوئی بلوچی زبانے ننا) کو ارشاد کرتا / کرتی یا اس طرح کی کوٸی شاعری ہوتی تو کمپیئرر اور ججز کا آنکھوں سے ایک دوسرے سے اشاروں میں ہمکلام کرنا ایک نہایت نیچ اور نازیب حرکت ہے جس سے یہ واضح ھوتا ھے کہ منتظمین اور ججز کا پہلے سے یک طرفہ فیصلے کیلئے متفق ہونا ھے۔
6.مقابلہ کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا اسکے نتائج favoritism اور نظریاتی تعصب کے بنا پر بنائے گئے۔ وہ طلبا و طالبات جو اپنے تقریر میں براہوئی اور بلوچی کو اپنی اپنی زبانیں تصور کرتے ہیں اور اس سے منسلک اشعار پڑھے ان کو بہترین تقاریر پیش کرنے کے باوجود نظر انداز کردیا گیا۔ جنہوں نہایت پرخلوص پرجوش ولولہ انگیزی اور دلاٸل سے تقریر سرانجام دے کر پوزیشن کے مستحق بننے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ مقابلہ در اصل تقریری قابلیت نہیں بلکے نظریہ کے بنیاد پر رکھ کر میرٹ کا پامالی کا باعث بنا۔

مستقبل میں حوصلہ شکنی اور نفرت انگیز ماحول اور واقعات پر کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے متنازعہ اور تعصب پر مبنی پروگراموں کو تعلیمی اداروں بلخصوص ایلمنٹری کالج قلات، ڈگری بوائز کالج قلات اور انٹر گرلز کالج قلات اور ہائی سکولوں میں منقعد کرنے سے گریز کرنا چاہےتاکہ وہ اپنے ہی اداروں اور اساتذہ سے بدزن اور بیزار نہ ہوسکے۔ اگر کسی بھی وقت اس طرح کا کوٸی پروگرام ہو تو وہاں پر ایسے ججز ہو جو اقرابا پروری اور متعصبانہ عمل سے پاک ہو خاص کر ایسے ججز کی سلیکشن محکمہ تعلیم کی طرف سے ہو توبہترہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔