این ڈی پی کی جانب سے بابا خیر بخش مری کی دسویں برسی لیاری میں منائی گئی

104

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے جدید بلوچ نیشنلزم کا فکری منبع نواب خیر بخش مری کی دسویں برسی کے حوالے سے لیاری میں میں ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

تعزیعتی ریفرنس کی صدارت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہزیب بلوچ ایڈوکیٹ کر رہے تھے، جب کہ مہمان خاص استاد میر محمد علی تالپور تھے، اور اسٹیج کے فرائض غنی بلوچ نے سر انجام دے، پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، عوامی ورکر پارٹی کے کامریڈ خرم علی، نامور صحافی وینگس، بی وائی سی کے لالا وہاب بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کیے.

شاہزیب بلوچ نے بابا خیر بخش مری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ خیر بخش مری نے ساری عمر ایک نظریے کی آبیاری کی آج اسی نظریے پر کاربند ہو کر ہم سمیت ہزاروں کارکنان شعوری طور پر اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں۔ سردار خیر بخش مری کی فطرت نے انہیں بلوچوں کے دلوں میں اعلی مقام عطا کیا ہے، خیر بخش مری تمام زندگی مظلومیت کے خاتمے کی خاطر لڑتے رہے۔ انسانی فطرت دو طرح کے ہوتے ہیں اگر وہ صحیح راستے پر گامزن ہو تو وہ فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں اور غلط کا انتخاب کرے تو شیطان کو پیچے چھوڑ جائے۔ انہی انسانی فطرت کے باعث آج دنیا ظالم و مظلوم کے کشمکش میں مبتلا ہے۔ کسی بھی معاشرے کے ذہنوں کو ناکارہ بنانا نا ممکن نہیں ہے اگر نوجوان عیش پرستی میں مبتلا ہو جائیں اور اسی کو اپنا مقصد سمجھیں، تو اسے اسکے اصل ہدف سے بھٹکانا آسان ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سامراجی ریاستوں نے اپنے نوآبادیاتی عزائم کو تکمیل دینے کے لئے بلاواستہ مظلوم و محکوم اقوام کے لباس، ثقافت، روایات، اخلاقیات پر اثر انداز ہو کر اپنے استعماری پالیسیوں کو مسلط کرنا شروع کر دیتے ہیں۔محکوم کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں کہ وہ سامراج کا مسلط کردہ پالسییوں پر اپنی زندگی گزارے یا مزاحمت کا راستہ انتخاب کر کے ریاستی جبر و تشدد کو مسترد کرتے ہوئے خود کو ابھارے۔

تشدد اپنے اندر کسی بھی محکوم کے جدوجہد کو کند کرنے کا اثر رکھتی ہے اور تنقیدی شعور کے بیداری سے تشدد سے پیدا کئے گئے رکاوٹوں کی نشاندہی کر کے صحیح راستے کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، یہ تب ممکن ہے جب انسان غور و فکر کر کے دلیل اور عمل کے زریعے بہترین منصوبہ بندی اور صحیح حکمت عملی کے ساتھ سیاسی جدوجہد کو مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھے۔ موجودہ ریاستی نظریے کی بنیاد اسلامی مساوات اور جمہوریت پر قائم ہے لیکن چھتر سال گزرنے کے باوجود ریاستی نظام کے اندر نا اسلام موجود ہے اور نا ہی عوام کی بالادستی نظر آتی ہے جبکہ ریاستی مشینری کا مکمل توجہ اس امور پر گامزن ہے کہ تہہ در تہہ عوام پر بھاری بھرکم ٹیکسوں کا امبار لگا کے اشرافیہ بالادستی کو محفوظ اور مستحکم رکھا جائے جبکہ اس سارے صورتحال میں کمیشن خوری ، رشوت ستانی، اقرباپروری اور کرپشن کے زریعے ریاستی بنیاد کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اب موجودہ ریاست کے حکمرانوں کو بیچنے کے لئے صرف بلوچ سرزمین باقی بچا ہے جیسے ریکوڈک ، سیندک، سوئی، سی پیک، اور گوادر میگا پراجیکٹس کے زریعے نام نہاد ترقی کے لفظ کو استعمال کر کے بلوچ ساحل وسائل کو لوٹنا بنیادی حدف ہے۔

شاہ زیب بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ کا شعوری طبقہ جب اظہار رائے کے راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ریاست سے سوال کرتا ہے تو اسے جبرا لاپتہ یا ماؤرائے عدالتی قتل کر دیاےجاتےہیں، جبکہ پاکستان نے گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی منشور برائے انسانی حقوق کے چارٹر میں دستخط کر کے یہ عہد کیا تھا کہ وہ ریاستی سطح میں بنیادی انسانی حقوق کے پاسداری کو یقینی بنائےگا لیکن اسکے برعکس بلوچستان میں ریاستی رویہ متعصبانہ اور بربریت پر قائم پالسیوں پر گامزن ہیں۔ لہذا ایک منظم سیاسی جماعت کی ضرورت ہے کہ بلوچ کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات کے صحیح ہدف کو تعین کرتے ہوئے سردار خیر بخش خان مری کے فکر و فلسفے کے روشنی میں بلوچ قوم کو راہ نجات دلائے، لیکن یہ ضروری ہے کہ سیاسی تنظیم ہر طرح کے تنگ نظری اور جزباتی کیفیت کو ختم کر کے عقل اور دلیل کے ساتھ جدوجہد کرے۔

میر محمد علی تالپور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بابا مری درویش صفت انسان تھے مگر یہ درویشی یوں نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا قیمت ادا کرنا پڑھتا ہے جو بابا مری نے ادا کیا۔ وہی بلوچوں کی حقیقی لیڈر ہیں اور انہیں یہ سعادت اپنے عمل سے ملی ہے ،ان کے ساتھ کسی اور کا موازنہ کرنا نا ممکن ہے۔نواب مری سے کسی انگریز صحافی نے پوچھا کہ آپ بلوچوں کی پسماندگی کو ختم کرنے اور ترقی دینے کے حق میں کیوں نہیں تو نواب مری نے جواب میں کہا کہ یہی سوال ہٹلر تم انگریزوں سے کرتا کہ تم لوگ اپنے لوگوں کی پسماندگی ختم کرنے اور ترقی دینے کے حق میں کیوں نہیں۔ نواب مری نے بندوں کو کبھی خدا نہیں مانا نہ ہی کوئی مشرف اور نا ہی کوئی ایوب خود کو خدا کہلوانے میں کامیاب ہوا۔ آج تک لڑنے والے نواب مری کے میراث ہیں کیونکہ انہیں یہ فلسفہ نواب مری سے ہی ملا ہے۔ نواب مری ہمیں بہت کچھ دے کر گئے وہ مزاحمت کا جذبہ دے کر گئے، عشق کا جذبہ دے کر گئے اور نواب صاحب کا عشق بلوچ و بلوچستان تھا۔ نواب مری نے بلوچوں کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا، اور سب سے بڑھ کر انہوں نے بالاچ کو قربان کیا، یہ جذبہ اور ہمت ہر ایک میں نہیں ہوتا۔ آج اگر بلوچ سرزمین کے لئےذبح ہونے اور قربان ہونے کے لئے تیار ہیں تو نواب مری کی بدولت کیونکہ نمرود کی آگ میں پہلے وہی کھو دے۔ آج اگر انکے عملی زندگی سے ہم کچھ نا سیکھیں تو سو کتابیں پڑھ کر بھی کچھ نہیں سیکھ سکیں گے۔

پروفیسر منظور بلوچ نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواب خیر بخش مری نے جدید نیشنلزم کی بنیاد رکھی ہے۔ انکو پہلی بار حق توار سرکل میں بات کرتے سنا تب ہی سے یقین ہو گیا کہ اس شخص کو سمجھنا آسان نہیں بلکہ سالوں کی محنت درکار ہے۔ وہ یا تو خاموش ہوتے یا پھر یوں بولتے جیسے دریا کی روانی۔ انہیں سننے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس وقت کے کچھ نام نہاد پڑھے لکھے لوگ خود جاہل تھے جنکا کام تھا کہ یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں خوف اور ڈر پیدا کیا جائے اور قومی تشکیل کے عمل کو روکا جائے اس لئے وہ قوم پرستی کی سیاست کی مخالفت کرتے تھے۔ جب بابا کے پاس آنا جانا ہوا تو محسوس کیا وہ ہم پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے انکا مزاج ہی اس طرح کا تھا وہ ایک ایسے مشن کا حصہ تھے جس میں رازداری کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ اگر بابا مری کے افکار لکھے جا چکے ہوتے تو ہمارے پاس اتنا بڑا لٹریچر ہوتا کہ شاید ہمیں کسی دوسرے لٹریچر کی ضرورت نا ہوتی۔ وہ بلوچستان کی عشق میں اس قدر مبتلا تھے کہ ایک بار کسی سوال پر مجھ سے سخت نالاں ہوئے کہ مجھے بڑا چڑھا کر پیش نا کیا جائے ، ابھی تک میں نے کیا ہی کیا ہے۔ اس تحریک کا بھیڑا میں نے نہیں بلکہ نوجوانوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ حقیقت میں اپنی شخصیت کو پی جانے اور ہضم کر جانے کا ہنر میں نے بابا مری کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھا۔ وہ خود پسندی اور انا جیسی بیماریوں کو جانتے بھی نہیں تھے بلکہ ان سے بالاتر ہو چکے تھے وہ صرف بلوچستان کی عشق میں مبتلا تھے۔ اگر پنجاب بلوچستان کا حاکم نا ہوتا یا ہم پنجاب کے کالونی نا ہوتے تو شاید بابا مری تشدد کی حمایت نا کرتے۔ وہ تشدد پسند ہرگز نا تھے مگر وہ کہتے تھے کہ پنجابی تشدد کے علاوہ کوئی زبان سمجھ ہی نہیں سکتا، وہ انسانیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ بھٹو جیسے لیڈر گرفتار ہوئے مگر کوئی احتجاج نا ہوا جبکہ خیر بخش مری کے فلسفے کے پیروکار سر ہاتھوں میں لئے جان کی قربانی دے رہے ہیں۔یہ افکار کسی عام شخص کے نہیں ہو سکتے بلکہ اس عاشق کے ہو سکتے ہیں جس نے زندگی بھر ایک فلسفے کی آبیاری میں گزار دی۔ آج بھی بابا مری چلتن کی آغوش میں لیٹ کر مسکرا رہے ہوں گے کہ بلوچ سپوت سرزمین کی حفاظت کے لئے سامراج کو مٹی کی دھول چٹھا رہے ہیں۔خیر بخش ہنس رہے ہیں اور حکمرانوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہے اور آگ چاروں طرف لگی ہے۔

نامور صحافی وینگس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیر بخش مری سے میری ماں بہت متاثر تھی اور میرا خیر بخش مری سے انٹرویو لینے کا مشورہ بھی انہی کا تھا چونکہ اس وقت میں صرف بالاچ مری کے نام سے واقف تھی تو خیر بخش مری سے ملاقات سے پہلے وہ میرے لئے محض بالاچ مری کے والد تھے۔ میں بالاچ کے کردار میں ہی نواب خیر بخش کا موازنہ کر رہی تھی اور ملاقات سے قبل مجھے لگتا تھا کہ بہت زیادہ محتاط ہونا چاہیے چونکہ وہ سردار ہیں ،انکا رویہ بھی سرداری ہی کی طرح کا ہوگا ۔ وہ دو ملاقاتیں زندگی کے بہترین تجربے کے طور مجھے یاد ہیں۔ میری جھجک ان سے ملاقات سے چند لمحے بعد ہی ختم ہو چکی تھی یہ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کسی سردار سے بات کر رہی ہوں۔ مجھے ایک لمحے کے لئے بھی خیر بخش سردار نہیں لگا ،اس تمام ملاقات میں مجھے تو بس وہ عاشق ہی دیکھا جو عشق کی انتہا کو چو رہا تھا۔ نواب خیر بخش سر زمین بلوچستان کا عاشق تھا، کوئی بھی سوال ہوتا گھما پھرا کر اس نے اپنی محبوبہ پر ہی ختم کرنا ہوتا تھا۔ اگر باباخیر بخش کو بیان کرنا ہو تو میں کہوں گی اصول پرست انسان، سچا آدمی اور عشق کی انتہا کو چونے والا ،بلوچستان کا عاشق یہ تین اصول اب تک مجھے صرف خیر بخش مری کی زندگی میں دیکھنے کو ملی ۔ انکی زندگی میں سیاست کی بہت اہمیت تھی جبکہ وہ سیاست عشق کی سیاست تھی انکی سیاست انسانی تکمیل کی سیاست تھی، انکی سیاست آزادی کے لئے تھی۔ بلوچ اور بلوچستان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں نواب خیر بخش مری جیسا رہنما نصیب ہوا ہے جو بیک وقت درویش بھی ہے، سردار بھی ہے اور دھرتی کا عاشق بھی۔ بلوچستان کی تحریک میں بے شمار کردار ہیں مگر مرکزی کردار نواب مری ہی کا ہے۔ آج تحریک سے وابستہ ہر کارکن کی کمٹمنٹ کے پیچھے نواب مری کا کردار ہے، ان ہی کا فلسفہ ہے۔ بلوچ قوم پرستی کی سیاست میں ان کی کنٹریبیوشن بہت زیادہ ہے۔
اسلام آباد والے کہتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ تین سرداروں کا ہے میں کہتی ہوں کہ آپکا آئین تین سرداروں نے نہیں بنایا، اس کو سندھیوں نے بنایا، نا بلوچوں نے بنایا، آپ نے خود بنایا ہے اور اسی پر عملدرآمد کا کہتے ہیں تو ہم غدار بھی ہیں، گناہ گار بھی۔ یہ مظلوم کا درد ہے ،اسے صرف مظلوم ہی سمجھ سکتا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ہم آپکا درد سمجھ سکتے ہیں میں کہتی ہوں آپ ہمارا درد بلکل نہیں سمجھ سکتے، اس درد کو مظلوم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آج ہی کی بات ہے کہ بلوچوں کے علاقے ملیر کو تباہ کیا جا رہا ہے ،کراچی کے کس انسانی حقوق کے کارکن، سماجی کارکن یا پھر صحافی نے اس پر احتجاج کیا۔ میں کہتی ہوں کہ آج یہاں بیٹھا ہر شخص نواب مری کا پیروکار ہے۔ آج بلوچوں کے رونما ہونے والے جتنے بھی نئے کردار ہیں ان سب کے پیچھے ایک ہی شخص ہے وہ خیر بخش مری ہیں۔

عوامی ورکر پارٹی کے کامریڈ خرم علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مختصر کہوں تو نواب صاحب بلوچستان کے ماؤزے تنگ تھے۔ اگر خیر بخش مری کو سمجھنا ہے تو سمجھ لیجئے جس نے بھی اگر نظریات پہ سمجھوتہ نہیں کیا تو وہ خیر بخش مری ہیں۔ وہ اپنے نظریات اور اصولوں پر پختہ تھے اور کسی بھی طریقے سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ خیر بخش مری تمام زندگی سامراجیت کے خلاف مزاحمت کرتے رہے، پاکستان کا مطلب آپ کچھ بھی نکالیں مگر میں کہتا ہوں کہ اسکا مطلب جتنے محکوم اقوام ہیں انکی وسائل کو لوٹ کر سامراجی ممالک کو بیجھیں اور اسکا حل کسی مزاکرات میں نہیں بلکل مزاحمت میں پنہاں ہے۔ نواب مری کے حق توار کے زریعے ایک ایسا نیوکلیس بنایا کہ اب ریاست پریشان ہے کہ اسے کیسے روکا جائے، اگر پریس کلبوں میں جاتے ہیں تو وہاں پابندیاں ہیں اگر پہاڈوں پر جاتے ہیں تو انہیں سب خیر بخش نظر آتے ہیں۔اگر اس خطے کا انقلاب سمجھنا ہے تو نواب خیر بخش مری کو سمجھنا ضروری ہے۔

لالا عبدالوہاب بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواب مری بلوچوں کے لیجنڈری رہنما رہے ہیں جنکا ثانی نہیں۔ آج کی تحریک سے وابستہ ہر کارکن آپکے فکر و فلسفے پر کاربند ہے، آپ نے فکری حوالےسے بلوچوں کو اس قدر شعور دیا کہ آج تیسری نسل بھی آپکے نقش قدم پر چل کر قربانیوں کے لئے تیار ہے۔ بلوچوں کی بقا اور بلوچ تشخص کو برقرار رکھنےکے لئے ضروری ہے کہ ہم سردار خیر بخش مری کے فکر کو راہنما اصول بنائیں اور خیر بخش مری کے اس کاروان میں شامل ہو کر اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرائیں۔

پروگرام کے آخر میں ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری کو مسمار کرنے کی مذمت کی گئی اور بی وائی سی کے رہنماؤں کے خلاف درج ایف آئی آر کو ریاستی ہتھکنڈوں سے تشبیہ دیا گیا۔