اقوام متحدہ: افغانستان میں طالبان مخالف حملوں میں اضافہ, دو باغی گروپ پیش پیش

308

اقوام متحدہ نے افغانستان کی صورت حال پر ایک سہ ماہی رپورٹ میں طالبان کی حکومت کے خلاف برسرپیکار مسلح گروہوں کے حملوں میں اضافے کو دستاویز کیا گیا ہے۔ اس نے افغان رہنماؤں کے درمیان “مسلسل” اندرونی تناؤ پر بھی توجہ دلائی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن، یا UNAMA نے جمعے کو یہ جائزہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حال ہی میں اسے سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلح اپوزیشن کا علاقائی کنٹرول پر طالبان کی گرفت کے خلاف “کوئی نمایاں چیلنج سامنے نہیں آیا”۔

تاہم رپورٹ میں کہا گیاہے،”دو مخالف گروپوں نے رپورٹنگ کی مدت کے دوران تصدیق شدہ حملے کیے، جو افغانستان فریڈم فرنٹ (اے ایف ایف) اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) تھے۔”

یہ دونوں گروپ، کابل کی بین الاقوامی سطح پر حمایت یافتہ سابق حکومت کے سیاسی اور فوجی حکام پر مشتمل ہیں جنہیں اس وقت کے باغی طالبان نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔

ان باغی گروپوں نے اس رپورٹ کے سامنے آنے سے پہلے، نومبر کے دوران کم از کم 50 طالبان اہلکاروں اور فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا،۔ ملک کے شمال اور شمال مشرق میں حملے کے بعد فرار ہونے والے گروپ ارکان کی یہ شورش سب سے زیادہ فعال رہی ہے۔ ان علاقوں میں طالبان کو 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور میں نمایاں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شائع کیے گئے دری اور انگریزی میں مختصر بیانات میں افغانستان فریڈم فرنٹ اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ آف افغانستان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کے جنگجو طالبان کے ارکان کو چوکیوں، فوجی اڈوں اور یہاں تک کہ شاہراہوں پر بھی باقاعدگی سے نشانہ بناتے ہیں۔

انامہ کا کہنا ہے کہ دونوں گروپوں کی توجہ دارالحکومت کابل میں طالبان کی سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے پر مرکوز تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ نے پچھلے تین مہینوں میں “29 تصدیق شدہ حملے” کیے، جن میں سے 20 کابل میں اور باقی شمالی افغان صوبوں تخار، بغلان اور پروان میں کیے گئے

افغانستان فریڈم فرنٹ نے 14 حملے کیے، یہ تمام حملے کابل میں کیے گئے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دونوں گروہوں نے ڈی فیکٹو سیکورٹی فورسز کے خلاف حملہ کرکے فرار ہوجانے کے حربے استعمال کیے، 22 حملوں میں دستی بم پھینکے گئے اور سات دیگر میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات کا استعمال کیاگیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ 26 فروری کو NRF کے دعویٰ کردہ حملے میں کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے طالبان کے زیرانتظام ملٹری زون کو نشانہ بنایا گیا، تنصیب پر تین مارٹر فائر کیے گئے لیکن کوئی تصدیق شدہ نقصان یا جانی نقصان نہیں ہوا۔

اونامہ کا یہ تجزیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہیں جب میڈیا پر طالبان کے کریک ڈاؤن نے صحافیوں کے لیے مستند معلومات تک رسائی اور باغیوں کے دعوؤں کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔

اندرونی اختلافات

جمعے کو جاری ہونے والی رپورٹ میں گورننس کے امور پر طالبان کے اندر کچھ اختلافی خیالات کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی فیکٹو حکام نے عوامی اتحاد کو برقرار رکھا اور پورے قومی علاقے پر اپنا اختیار قائم کیا، حالانکہ ان کے ڈھانچے میں کچھ اندرونی تناؤ موجود تھا۔

طالبان کے عہدیداروں نے اپنے سخت گیر سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوندزادہ، اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے داخلی اختلافات کے بارے میں بیانات کو تواتر سے مغرب کا پروپیگنڈہ کہہ کر مسترد کیا ہے۔

طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے جمعرات کو ایک مختصر بیان میں کہا، “یہ محض افواہیں ہیں، سچ نہیں”۔

طالبان کے عہدیداروں نے ابھی تک اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

طالبان حکام نے مسلح شورش کو کم کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جنگ زدہ افغانستان میں عوامی حمایت سے امن بحال کیا ہے اور انہوں نے ملک کے تمام 34 صوبوں پر کنٹرول قائم کر لیا ہے۔

صرف مردوں پر مشتمل طالبان حکومت افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار تک رسائی پر سخت پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہیں اور ان کی مذمت کی جاتی ہے۔

کسی بھی ملک نے طالبان کی قیادت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔