احتجاج میں گزرتے عید – ٹی بی پی اداریہ

85

احتجاج میں گزرتے عید

ٹی بی پی اداریہ

جنگ زدہ بلوچستان میں ریاست کی انسداد انسرجنسی پالیسیوں نے ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ یہاں خوشیوں کے تہوار اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ عید کا دن عزیز و اقارب سے ملنے کا موقع ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ دن جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا دن بنتا جارہا ہے۔

جنگ زدہ حالات کے سبب بلوچ نوجوانوں نے پڑھنے کے لئے بلوچستان کے شہروں اور پنجاب کا رُخ کیا لیکن وہ تعلیمی اداروں میں بھی جبری گمشدگیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے اور گھر واپسی پر انہیں راستے میں فوج اور فرنٹیئر کور کے چیک پوسٹوں سے جبری گمشدہ کر دیا جاتا ہے، جس کے سبب بلوچستان سے باہر تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم سینکڑوں نوجوان عید کی تہوار میں بھی اپنے گھروں کو واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔

بلوچستان کے متنازعہ وزیراعلیٰ جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کی بات کرتے ہیں، وہیں بلواسطہ اور بالواسطہ ریاستی جبر کو جواز بھی فراہم کررہے ہیں لیکن بلوچستان میں ریاستی جبر کے شکار افراد ظلم و جبر پر اب خاموش ہونے کے بجائے احتجاج میں شدت لا رہے ہیں اور اپنی تحریک کو منظم کرکے ادارہ جاتی شکل دے رہے ہیں۔

بلوچستان میں اختیار دار ادارے اگر سنگین مسائل کو حل کرنے کے بجائے جواز فراہم کرتے رہے، تو بلوچستان میں عید کی تہواریں اسی طرح احتجاج میں گزرتے رہیں گے اور جبر کے خلاف تحریک منظم ہوکر شدت اختیار کرے گی، جو یقیناً ریاست کیخلاف مزید غصہ و نفرت پر منتج ہوگا۔