‏‏خوشنودی ۔ نعیمہ زہری

200

‏‏خوشنودی

تحریر: نعیمہ زہری
دی بلوچستان پوسٹ

‏افراد کی ذہنیت ہمیشہ مختلف ہوتی ہے ایک دوسرے سے، بلکہ کئی دفعہ ایک ہی انسان کی ذہنیت مختلف ہوتی ہے وقت و حالات کے قالب سے شکل پکڑتا ہوا وہ کہی مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان دنیا کے تمام مخلوقات و تخلیق پہ قابو پا سکا لیکن وہ ابتک اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ انسان آیا فطری طور پر ظالم ہے، عیاش ہے، آرام پسند ہے، نرم دل و محبت کرنے والی ذات ہے یا ایک مکار اور خود پرست شے ہے جو گوشت و ہڈیوں کا لوتھڑا ہے کہ جب بھی اپنے مفاد کو کسی دوسرے کے مفاد کے ساتھ ٹکراتا ہوا دیکھے تو ایک وحشی درندہ صفت جانور سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ مفاد کو پورا کرنے کی چاہ و خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک یا زور بازو رکھنے والے زورآور کے سامنے کبھی دھوکہ دہی تو کھبی چاپلوسی جیسے حربے استعمال کرتا ہے۔ انکی زیادہ سے زیادہ قوت اپنے مفادات کی حفاظت میں خرچ ہوتی ہے۔ انکا مقصد دوسروں کی خوشنودی نہیں ہوتی بلکہ اپنی ذہنی تسکین سے حاصل شدہ آرام ہوتی ہے جو انہیں اپنے خاص مقصد کو حاصل کرنے کے بعد میسر ہوتی ہے۔

معاشرتی اعتبار سے لیکر سیاست کے ناروا اور ظالم بیابانوں میں ایسے غیر موزوں لوگ ملتے ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف انسانیت کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے ضمیر کو ذاتیات کے آہنی چپلوں تلے روند کر اپنی قوم، اپنے قبیلے، اپنے کنبے اور اپنے خونی رشتوں سے نہ صرف بغاوت کرتا ہے بلکہ وہ خود کو بیچ دیتا ہے۔ ایسے ہی نامور اور زر خرید گماشتے ہر طبقے اور ہر شعبے میں ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو ترجیح دیکر خود اپنی زیادہ تر زندگی سلاخوں کے پیچھے بتاتے رہے لیکن کبھی انسانی اقدار اور قوم سے دشمنی و بے وفائی کو فوقیت نہیں دی۔ لیکن بد قسمتی سے دوسری طرف ایسے بھی اشخاص تاریخ کے سیاہ اوراق کی زینت بنے جنہوں نے چند پیسوں کی خاطر اپنے ضمیر کو بیچ دیا، اپنی دھرتی، جسے دنیا کے ہر مذہب و تہذیب نے ماں یا باپ کا درجہ دیا ہے، اس سے غداری کا مرتکب ہوتے ہیں۔

‏اس چاپلوسی اور مکاری کی فضاء میں اگر کوئی شخص اپنے آقا و حاکم کی خوشنودی کی بجائے دنیاوی لذت و مفادات کے پیوند شدہ نا زیبا زندگی کو اپنانے کے بجائے ظلم کے سامنے آنکھیں ملاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ چند چنے ہوئے انسان ہوتے ہیں جو انسانیت کو اپنا مذہب بلکہ انکو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر خود کو اجتماعی سوچ و مقصد کیلئے وقف کرتے ہیں۔ تاریخ کے پنوں میں وہی لوگ لیڈر ہوتے ہیں جو ظالم کی بٹی میں سیکھی ہوئی ہتھوڑے کی مار کو برداشت کر کے کندن بنتے ہیں۔ حالانکہ ریاست و حاکم کیلئے ایک نڈر اور بے باک لیڈر اور اجتماعی سوچ رکھنے والے انسان کو دینے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے اور وہ ان سے زیادہ تر خریدنے اور بکنے والی پالیسی کو اپنا سکتی ہے۔ کیونکہ ریاست اس آواز سے ڈرتی ہے جو ایک دوسرے خوفزدہ انسان کے دل سے ڈر کی فضاء کو ختم کر کے اسے ظالم کے سامنے ایک چیلینج بنا کر کھڑا کرتی ہے۔

اس صورت میں حقیقی لیڈر اور مفاد پرست لیڈر کے مابین ایک لکیر کھینچ لی جاتی ہے۔ جو اس ذاتی آسائش اور ظاہری پر سکون زندگی کو اپناتے ہیں، یہ زندگی بھی دوسروں کے خون پسینے پہ مٹی ڈال کر لی جاتی ہے، تو وہ حقیقی نہیں بلکہ مفاد پرست، چاپلوس، خودبخور و بے جان انسان ہوتے ہیں جو انسانی شکل میں گوشت و ہڈیوں کے لوتھڑے کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ اور وہ جو ان مفادات سے اوپر ایک اجتماعی سوچ پہ چل کر خود کو انسانیت کیلئے قربان کرنے جیسے راہ کو چھن لیتے ہیں انہیں تاریخ سنہرے الفاظ میں نہ صرف لکھتی ہے بلکہ وہ رہتی دنیا تک ہر وہ مظلوم اور با وقار شخص کے دلوں میں جیتے رہتے ہیں جو ظلم اور حق، خاموشی اور امن کے مابین تفاوت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

‏ جبکہ دوسری طرف ایک چاپلوس جو چند پیسوں کے لئے خود کو بیچتے ہیں انہیں تاریخ سیاہ حروف سے لکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انکی کہانی دلوں میں ضرور ہوتی ہے لیکن وہ عزت و تکریم کیلئے نہیں بلکہ وہ ہر اس شخص کے سامنے دہرائی جاتی ہیں جنہیں اپنے اقدار اور ان سے روگردانی کرنے کے سزا سے بچنے کیلئے عبرت کا نشان بننے کے بعد کے انجام سے ڈرانے کیلئے کی جاتی ہے۔

‏بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسی فضاء رونما ہوئی ہے جہاں پیسے کو مقصد، چاپلوسی کو ہنر، اور سچ کو بغاوت اور ظلم کے سامنے عارضی خاموشی کو امن اور خوشحالی تصور کی جاتی ہے۔ امن خاموشی سے کہیں زیادہ پر کشش ہوتی ہے، امن کی صورت میں دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے کسی دوسرے پر امن اور محفوظ حالات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انسان اپنی اور اپنے حاکموں کی اصلاح کیلئے بلا خوف و خطر نا صرف اپنے قلم کو سچائی کے قالب سے گزار کر لوگوں کو سچ سے آشنا کرتا ہے بلکہ وہ اس قلم کی آڑ میں ایک جوابدہ حکومت کو اپنی اصلاح کیلئے مجبور بھی کرتی ہے جبکہ اسکے بر عکس خاموش کی صورت میں دل میں دبے خواہشات درد کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ اور زندگی میں انسان ایک پر وقار زندگی کی تلاش میں اپنے دشمن سے بچنے اور اسے باور کرنے کیلئے موزوں وقت کی تلاش میں ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔