مشن کی تکمیل (پہلی قسط) ۔ دیدگ بلوچ

656

مشن کی تکمیل (پہلی قسط)
تحریر: دیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

گولی ۔۔۔
روزانہ دوپہر کو کھانے کے بعد
مخصوص نمبر سے مجھے میسج موصول ہوتے ہی میرے پاٶں مین گیٹ کی طرف بڑھنے لگے ۔
جلدی میں کمرے سے نکلتے ہی لان میں عدنان صاحب بےچینی سے کسی کے انتظار میں ٹہلتے ہوئے مجھے نظر آیا اوئے چھوٹو چل نکل یہاں سے وہ مجھے گھورتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ مین گیٹ پہ دو ویگو بھی اسی وقت پہنچ گئے ۔ چل جلدی سے دروازہ کھول اور غائب ہوجا یہاں سے۔ عدنان گاڑیوں کو پہچانتے ہی مجھے دروازہ کھولنے کا کہا۔ جی سر ! کہتے ہوتے میں دروازے کی طرف چل پڑا ۔

یکے بعد دیگر دونوں ویگو چمنی کے قریب رک گئے ۔ عدنان کا رویہ دیکھتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے ۔۔۔۔کیونکہ عدنان بظاہر تو غصے میں دکھ رہا تھا لیکن اندر ہی اندر بہت خوش تھاُ عدنان کی خوشی کا سبب کیا ہے ؟ یہ میں جانے بغیر کیسے آرام سے رہتا ۔

اس کو فلحال رہنے دو پہلے تمام کاٹن اٹھا کے کمرے میں رکھو۔ یہ سن کے میرے دل میں ایک عجیب سی بے چینی پیدا ہوئی اور میں بھی قریب سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ عدنان کی نظر مجھ پہ پڑتے ہی وہ میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ خالد سے کہنے لگا۔
آپ کو پتا ہے میں پکنک مناتے ہوئے کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی مخل ہو لہذا چھوٹو کو اچھی طرح سمجھادو کہ وہ اب کچھ گھنٹے یہاں نظر نہ آئے ۔ کچھ خرچی دے کر اسے بازار بھیج دو تاکہ وہ تازہ ہوا بھی کھائے اور سودا بھی لے کر آئیں ۔۔۔۔۔ اور ہاں اسے دور بھیج دینا اور اس سے کہنا کہ چار پانچ گھنٹے کے بعد واپس آئے اس سے پہلے آئے گا تو دفتر بند ہوگا ۔

خالد کے ہاتھ میں پیک دیکھ کر مجھے کچھ نہ کچھ شک ہوگیا تھا ۔۔۔۔لیکن ٹھیک اسی وقت پچھلے گاڑی سے کالے لباس میں ملبوس لڑکی کو اترتے دیکھ کر میری شک ختم ہوئی اور میں بے فکری سے مین گیٹ سے باہر نکل کر اپنے ٹھکانے کی جانب بڑھنے لگا ۔ میں مخصوص ہوٹل پہ پہنچتے ہی چائے کا آڈر دیتے ہوئے سرسری پورے ہوٹل میں نظر دوڑائی ۔۔۔۔۔لیکن وہی سب۔۔۔۔ ہر کوئی اپنے کام میں مگن ۔

کچھ ہی وقت گزرا ہوگا کہ ایک نوجوان لڑکا ہوٹل میں داخل ہوتے ہی کونے والی سیٹھ پہ بیٹھ کے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کے دنیا سے بےنیاز دھواں اڑانے لگا.

کچھ دیر بعد جب میں چاۓ پی کے فارغ ہوا تھا کہ وہی لڑکا جو کچھ دیر پہلے دنیا جہاں سے بےنیاز کونے میں سگریٹ کے کش لگا رہا تھا کہ اچانک کاٶنٹر پہ پہنچ کے چہ منگوٸیاں کرنے لگا ۔ میں مطمٸن بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک وہ لڑکا میری طرف بڑھنے لگا بظاہر وہ ایک غصیلا اور سنگ دل نظر آنے والا لڑکا حقیقتًا کتنا مہربان اور وطن دوست ہے یہ میرے اور کاٶنٹر پہ بیٹھے ہوٹل مالک کے سوا کوٸی اور نہیں جانتا تھا۔

یہ لو اپنے بقایا پیسے اور سیٹ فارغ کرو کافی رش ہے دوسرے گاہکو کو بھی جگہ دو ۔۔۔۔۔۔ وہ پچاس روپیہ کا نوٹ میری طرف بڑھا کے عام لہجے میں کہا تاکہ کوٸی اور اس پہ شک نہ کرسکے ۔ میں خاموشی سے ہاتھ آگے بڑھا کے پچاس کا نوٹ اس سے لے لیا اور اپنے جیب میں ڈال دیا۔

باہر نکال کر جب میں اس کے دیۓ ہوۓ پچاس کے نوٹ پہ نظر ڈالا تو دھنگ رہ گیا ۔ چاروں اطراف میں لمبی لکیریں کھینچ کر ایک کو میں اس نے “دیدو” لکھا تھا اور چوتھے لکیر کے عین درمیان 9283 نوشت تھا۔ اب میرے قدم تیزی سے دفتر کی جانب بڑھنے لگیں۔ پوری رات میں مین گیٹ پہ نظر جماۓ چوکس بیٹھا رہا ، گوکہ مجھے یقین تھا کہ آج رات عدنان کہیں بھی نہیں نکلے گا کیونکہ جس رات وہ شراب نوشی کرتا تو وہ پوری رات اپنے کمرے کے اندر مردہ لاش کی طرح پڑا رہتا لیکن میں کوٸی بھی رزق لینے کو تیار نہیں تھا۔
رات دو بج کے تیس منٹ کے قریب مین گیٹ کے قریب ایک موٹرساٸیکل کی آواز سناٸی دینے لگا ، تین سے چار سیکنڈ گزرے ہونگے کہ پورا دفتر دھماکے سے گونج اُٹھا ، قربان سنگت بے ساختہ میری زبان سے نکلا اور میں بستر پہ لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔ کس کی اتنی جُرت ۔۔۔عدنان کی چیخنے کی آواز صاف مجھے سناٸی دینے لگا ۔۔۔۔۔ سر آپ کمرے کے اندر جاۓ نہ جانے اب ان کے کیا ارادے ہونگے یہ آواز خالد کا ہی تھا ۔

تین بجے کے قریب ہم عدنان کے کمرے میں جمع تھے ، عدنان اور خالد نشے میں دھت تھے ، خالد آپ بم ڈسپوزیبل اسکواڈ کو فوراً یہاں پہنچنے کا کہو ۔۔۔۔۔ سر بم تو پھٹ چکا ہے اب بم ڈسپوزیبل اسکواڈ کا کیا کام ؟ عدنان میری بات سن کے دھاڑنے لگا بے وقوف انسان بہرا نہیں ہوں بم پھٹنے کی آواز مجھے بھی سناٸی دی لیکن ۔۔۔۔۔ وہ ایک دم خاموش ہوا۔

خوف ۔۔۔۔۔ وطن زادوں کا خوف ۔۔۔۔۔۔۔ میں سب کچھ اب سمجھ چکا تھا کہ وہ بم ڈسپوزیبل اسکواڈ کو کیوں بلانا چاہتے ہیں ۔
اگلے دو دن معمول کے مطابق گزرے تھے کہ تیسرے دن عصر کے وقت تین ویگو گاڑی دفترے پہنچ گئے ایک خوب رو نوجوان جس کی عمر بمشکل اٹھارہ سال ہوگی ، جس کے دونوں ہاتھ اور دونوں آنکھیں بندھے ہوئے تھیں خالد گھسیٹتا ہوا اسے زندان کی طرف دھکے مار کے لے جارہاتھا ۔

یہ سب کچھ دیکھ کے میرا دماغ سن ہوتا جا رہا تھا لیکن میں بے بس تھا ، اس وقت مجھے صرف اور صرف صبر کرنا تھا ۔
اگلے دن خالد سے بہانہ بناکر میں بازار کی طرف نکلا ۔۔۔۔ مخصوص ہوٹل پہ پہنچ کے سرسری نظریں دوڑانے لگا کہ وہ نوجوان اپنے اسی دن والے نشت سنبھالے سگریٹ کے کش لگانے میں مصروف تھا ۔ خالی کرسی دیکھ کر میں بھی اس سے چند گز کے فاصلے پہ بیٹھ گیا ۔
چائے پیئو گے ؟ میرے قریب آکر مجھ سے پوچھنے لگا ۔ جی ۔۔۔ میں نے بھی اثبات میں سر ہلایا ۔

یہ لو تھوڑا اخبار کا مطالعہ کرو جب تک چائے بن جائے ۔۔۔۔۔۔ وہ مخصوص ہیڈنگ پہ انگلی دبائے اخبار میرے ٹیبل پہ رکھ کے کائونٹر کی طرف بڑھنے لگا ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رات گئے بڑی کامیابی ۔۔۔۔۔ بی ایل اے کا ایک سرمچار گرفتار ، جس سے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود گرفتار بقیئہ 23 صفحہ نمبر 3 ۔

خبر پڑھنے کے بعد جیسے میرے پاٶں کے نیچھےسے زمین پھسل رہا ہو ۔ دل کررہا تھا کہ جاکے اس سے پوچھوں بتاٶ کون گرفتار ہوا ہے ، لیکن پھر اچانک میرے دماغ میرے سینئر کی بات گونجنے لگی ۔۔۔۔۔ دیکھو دیدگ تم نے ایک عظیم جنگ لڑنا ہے ، نہ آپ کے پاس کلاشن کوف ہے نہ پسٹل حتٰی کہ لاٹھی تک بھی آپ کو میسر نہیں ۔۔۔۔ لیکن ہم میں سے کوئی بھی آپ کو مجبور نہیں کررہا ، آپ یہ عظیم کارنامہ بخوشی اپنے ہی رضامندی سے سرانجام دینے جارہے ہو ، صبر اور راز داری اس جنگ کو جیتنے کے لیئے آپ کے پاس یہی دو اسلحہ ہیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے آپ با آسانی یہ جنگ جیت سکتے ہو ۔۔۔۔ یہ دل (کمانڈر میرے دل کو تھپتپاتے ہوئے کہا ) اگر اس میں آپ راز دفن کرنے کا فن جانتے ہو تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی مائی کا لال آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔ دوسرا ہتھیار آپ کا صبر ہے ۔ صبر کا مادہ جتنا زیادہ آپ میں پایا جائے گا ۔۔۔۔ آپ دشمن کے اتنے ہی قریب پہنچنے اور اس کے خفیہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاٶ گے ۔

یہ لو چائے وہ میرے قریب پہچنتے ہی معنی خیز لہجے میں کہا ۔ چند منٹ میں چائے ختم کرکے جب میں ہوٹل سے نکلا تو نا چاہتے ہوئے بھی میرے قدم خودبخود مجھے آٸی ، ایس ، آٸی ہیڈ آفس کی طرف کھینچنے لگیں ۔ دفتر پہنچتے ہی میں زندان کی طرف جانے کے لیئے بہانے ڈھونڈنے لگا ۔ بات سنو مبارک ۔۔۔۔۔ پیچھے سے خالد کی آواز مجھے سنائی دینے لگا ۔

یہ کرسی اٹھا کے میرے ساتھ چلو ۔۔۔۔۔ وہ زندان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اندھے کو دو آنکھ مل گئے ۔۔۔۔۔میں بخوشی کرسی اٹھا اس کے پیچھے پیچھے چلتا بنا۔

کیا نام ہے تیرا خالد عین اس کے سامنے کرسی پہ بیٹھ کے اس سے سوالات پوچھنے کا سلسلہ شروع کیا۔
و ۔۔۔ و ۔۔۔وس۔ ۔۔۔وسیم اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتے ہوئے بیزاری سے جواب دیا ۔ چوبیس گھنٹے مسلسل سونے اور اٹھتے ہی بازو پہ چھبن محسوس کرنا اس بات کی واضح گواہی تھی کہ اسے انجیکشن کے زریعہ نشہ دیا گیا تھا ۔ کس تنظیم سے تعلق رکھتے ہو؟ چند سیکنڈ خالد کو گھورنے کے بعد وہ ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے خالد کو ٹوکتے ہوئے کہا ” جان کے کیا اکھاڑنا ” ہے ۔

وسیم کی تلخ جواب سننے کی دیر تھی کہ اگلے ہی لمحے خالد کے پانچ کلو وزنی بوٹ وسیم کے سینے پر جا لگا ۔ وسیم نے سینہ پیچھے کی طرف گھمایا ہی تھا کہ زندان کا دروازہ ایک جھٹکے کھلا اور عدنان منحوس شکل لیئے زندان میں داخل ہوا ۔

ہاں بھئی کچھ بتانے کے موڈ میں ہے کہ نہیں ؟ عدنان زندان میں داخل ہوتے ہی خالد سے مستفر ہوا ۔۔ مگر خالد خاموش رہا۔ ارے اس کے ساتھ ساتھ تیری بھی بولتی بند ہوگئی ہے ۔۔۔۔ اس بار عدنان کا لہجہ استہزائی تھا ، اس بار بھی خالد کو خاموش دیکھ کر وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا ۔ اس سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ اس پیپر کو بس اس سے دستخط کروالو ۔۔۔۔۔عدنان ایک پیپر خالد کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہنے لگا ۔

یہ لے وسیم صاب تھوڑا زحمت کرکے اسے اپنے دست مبارک سے دستخط کرلے ۔۔۔۔ خالد وسیم کے گود میں پیپر رکھ کے طنزیہ انداز میں کہا ۔
میرا کسی بھی تنظیم سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں بے قصور ہوں اور نہ ہی یہ سنگین الزامات میں قبول کرسکتا ہوں، ہرگز نہیں ۔
سر گھی سیدھے انگلی سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔۔۔۔ خالد چہرے پہ منحوس مسکراہٹ سجائے عدنان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔ تم جانو تمہارا کام جانے ۔۔۔۔ یہ کہہ کر عدنان اور خالد مجھے زندان میں چھوڑ کر واپس پلٹنے لگے۔

خالد کو زندان سے نکلے چند منٹ ہی گزرے ہونگے اور میں ابھی تک زندان کے اندر ہی تھا ۔۔۔۔۔۔ میں بے بس نظروں سے اس لڑکے کو دیکھتا رہا لیکن وہ ایک بار بھی میری طرف نظریں اُٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی ۔ وہ دیوار پہ ٹھیک لگاٸے نظریں نیچھے کیۓ ہوۓ مطمٸن بیٹھا رہا ۔

ایمبولینس بلا کے مریض کو آٸی سی یو (ICU) وارڈ میں شفٹ کراٶ ادھر اس کا علاج ناممکن ہے ۔ برآمدے میں کھڑے عدنان خالد کو حکم دے رہا تھا اور میں ان کے ہاں اتنا عرصہ گزارنے کی بدولت ان کے ایسے ہزاروں خفیہ کوڈ ورڈز بھی جان چکا تھا ۔

آدھے گھنٹے کا وقت گزرا ہوگا کہ دو دیگو برآمدے کے پاس آکے رک گٸے وہی دو ویگو چو پچھلے دن وسیم کو آغواہ کرکے یہاں لاٸے تھے ، دو نقاب پوش آدمی جن کے ہاتھوں میں پسٹل اور واکی ٹاکی دیکھ کے میں سمجھ گیا کہ مریض سے مراد وسیم اور ICU Ward سے مراد ان کا کوٸی خفیہ ٹارچرسیل ہے ۔

ارے عدنان بھاٸی تو۔۔۔۔۔ تو ہمارے مریض کو علاج کرنے میں ناکام رہا اب ہم خود دیسی دواٸیوں سے اس کا علاج کرینگے ۔۔۔۔ تو دیکھنا کچھ ہی دنوں میں ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔۔۔ یہ کہہ کر دونوں زندان کی طرف بڑھنے لگیں۔ اگلے لمحے وہ دونوں وسیم کو زندان سے گھسیٹتے ہوۓ باہر نکالے اور سامنے والے ویگو کے پچھلے سیٹ پہ منتقل کٸے اور وہاں سے نکل گۓ ۔ ان بےوقوفوں کو کون سمجھے کہ ہر مریض کا علاج ہم نے کیۓ تو ان کے سرجن بھی بےروزگار رہیں گے ۔۔۔۔۔ دونوں کے قہقہوں سے برآمدہ گونجنے لگا ۔

سِوِک گاڑی کو لان میں کھڑی دیکھ کر میں بھی بے خوف عدنان کے دفتر کی طرف بڑھنے لگا ۔
عدنان صاحب آپ بلاوجہ ناراض ہو رہے ہیں میں تو کہہ چکا ہوں کہ میں نے FIR نہیں کاٹی اور میں ان کے خاندان والوں کو کہہ چکا ہوں کہ آپ لوگوں کا بندہ سی ٹی ڈی کے تحویل میں ہے وہ جب چاہے انہیں لوٹا دیں گے ۔

دیکھے تھانیدار صاحب میں آپ کو بارہا سمجھا چکا ہوں کہ آپ آٸی ایس آٸی اور سی ٹی ڈی کے نام لینے کے بجاۓ ایم آٸی کا نام لے لیکن تم تو بارہا ایک ہی غلطی کو دہرا رہے ہو ۔ عدنان صاحب ۔۔۔۔۔ معزرت چاہتا ہوں آٸندہ ایسا نہیں ہوگا ۔
دیکھے تھانیدار صاحب تم خود بھی تو اسی فیلڈ سے وابستہ ہو اور تم اس چیز سے بخوبی واقف ہو کہ آٸی ایس آٸی امن و امان کے لیۓ کتنی قربانی دے چکی ہے اور ہم اس چیز کے حقدار ہیں کہ یہ شہر ہمارے کنٹرول میں رہے ۔۔۔۔ لیکن نہ جانے یہ ایم آٸی والے درمیان میں کہاں سے آٹپکتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ اتنے بالغ نہیں کہ اس پورے شہر کو سنبھال سکیں ۔۔۔۔۔۔ تم بس ایک ہی کوشش کرو ان کے خلاف غلط افواہیں پھیلانا شروع کردو تاکہ لوگوں کا اعتماد ان سے اُٹھ جاۓ ۔

جو حکم سر ۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت کھڑکی کے بالکل سامنے کھڑا تھا ، ان کے درمیان ہوٸی گفتگو بھی با آسانی سُن رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور عدنان کے سامنے تھانیدار کتنی بے بس ہے یہ بھی میں دیکھ رہا تھا ۔

اگلے دن دوپہر بارہ بجے کے قریب دو عورت ایک نوجوان اور دو بوڑھے آدمی دفتر میں داخل ہوۓ اور ایک بندہ سیدھا انہیں عدنان کے دفتر لے گیا ۔ میں بھی سیدھا کھڑکی کے قریب جاکے پہنچ گیا تاکہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو آسانی سے سن سکوں ۔
اللہ اور اس کا رسول جانتے ہیں کہ میرا بیٹا بے قصور ہے ۔ آپ لوگوں کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں میرے بیٹے کو چھوڑ دیں ، یہ وسیم کی ماں تھی جو عدنان سے وسیم کی رہاٸی کا مطالبہ کر رہی تھی۔

محترم اللہ پاک کبھی کسی کو اپنی اولاد کا دکھ نہ دکھائے۔۔۔۔۔ ہم والدین ساری مصیبتیں تمام تکالیف ، غربت ،تنگی ،مفلسی اپنی ہر بیماری ،تمام تر دکھ اور دنیا کی تمام تکالیف صبر و شکر سے برداشت کر سکتے ہیں مگر اولاد کی تکلیف کے سامنے بےبس ہو جاتے ہیں ،اپنی اولاد کی ننھی سی تکلیف بھی اپنے اوپر لینے کو تیار رہتے ہیں ، وسیم کی ماں بھی اپنی اولاد کو کھو دینے کے بعد پورا ہفتہ اسے باتوں میں یاد رکھتے ہوئے گزاری ہے ۔ نم آنکھوں سے تصور میں اس سے باتیں کرتی ہے ،دل ہی دل میں سوچتی ہیں کہ اب اگر میرا بچہ ہوتا تو ایسا ہوتا ،یہ کرتا ،کسی کے نین نقش کو غور سے دیکھ کر اس میں چہرہ تلاش کرتی کہ آنکھیں اس جیسی تھی ،ہنسی ایسی تھی باتیں اس جیسی ، بس اولاد کو کھو دینے پر صبر تو کر لیتے ہیں والدین مگر انہیں کبھی سوچ سے نہیں نکال پاتے دعاوں کا مرکز بھی وہی رہتا ہے اور محبت کا پیمانہ بھی ویسا ہی ۔ محترم ہم آپ لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اب ہمیں اس ازیت سے نکال دو کیوں کہ وسیم کی ماں دل کی مریضہ بن چکی ہے ، میں بھی تین سال سے شوگر کے مرض میں مبتلا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا بیٹا کیا گل کھلا رہا تھا پتا ہے آپ کو وسیم کے والد کی بات مکمل ہی نہیں ہوئی تھی خالد نے اسے ٹوکا ۔
کچھ وقفہ خاموشی کے بعد عدنان کی بولنے کی آواز مجھے سنائی دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھے کامرانے (وسیم کے ابو کا نام غالبا کامران تھا ) اور عدنان خالص پنجابی لہجے میں اسے مخاطب کیا ۔ آپ کا بیٹا ایک مجرم ہے گوکہ کہ وہ اب تک ایسے قابل زکر کاروائی نہیں کرسکا مگر اس کا تعلق کسی نہ کسی مسلح تنظیم سے ضرور وابستہ ہے ۔ آئی ایس آئی اتنی کمزور نہیں کہ ایک دودھ پیتا بچہ دہشتگردی کرے اور بچ نکلے ۔۔۔۔۔ محترم میرا بیٹا تو ۔۔۔۔۔۔ کامران (وسیم کا ابو ) کچھ بولنے ہی والا تھا کہ عدنان نے اسکی بات درمیان میں کاٹ دی ۔۔۔۔۔ صفائی کی کوئی ضرورت نہیں آپ کا بیٹا خود اپنے جرائم تسلیم کرچکا ہے اور آئندہ ایسے کام نہ کرنے کی بھی یقین دھانی کراچکی ہے ، اب بہتر یہی ہے کہ تم لوگ واپس چلے جاٶ اور کچھ دن انتظار کرو تاکہ آپ کا بیٹا اپنے کرتوتوں کی سزا کاٹ کے پھر نکلے ۔

خدایا یہ کیسی بے بسی ہے ، یہ کیسی لاچاری ہے ، یہ کیسی بزگی ہے ۔ یااللہ بلوچ قوم کو ایسی ازیتوں سے بچالے ، ایسے بے بس بلوچ ماٶں کو مزید لاچاری و بزگی سے بچا لے۔
دعا ہے کہ بلوچ اب کسی کے ہاتھوں رسوا نہ ہو۔۔۔
کبھی ان لوگوں کے سامنے بے بس نہ ہوں جو ان کی لاچاری اور بے بسی پر تمسخر اڑائیں ۔
اے خدایا بلوچ کے آنسوؤں پر کبھی کوئی قہقہہ بلند نہ ہو ، بلوچ کے دکھ کا کبھی تماشا نہ بنیں
بلوچ ماٶں کو اب مزید کوئی ایسا غم لاحق نہ ہو جو ان کو ہزار نعمتیں بھلا دے۔
وسیم جان آپ کی آزمائشیں آسان ہوں۔

اب میرا ٹھکانہ اکثر عدنان کے کمرے کا وہ کھڑکی تھا جو برآمدے میں کھلتا تھا اور میں وہاں بیٹھے کان لگائے ان کے درمیان ہوتی گفتگو باآسانی سن سکتا تھا۔

آج عدنان کے دفتر میں کافی رش کش تھا کچھ نئے لوگ بھی آئے ہوئے تھے جو شاید ان کے کرائے کے مخبر تھیں ، آج وہ مختلف امور پہ بات چیت کررہے تھے ۔

میں نے ڈی سی کو پیغام بجھوادیا ہے کہ اس بار لیویز کے بھرتیوں میں کوئی بھی غلطی نہ کرے ۔۔۔۔۔۔ عدنان کی بات ختم ہوتے ہی ایک نقاب پوش کی آواز گونجنے لگی ۔۔۔ باس انہیں کہے کہ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھرتی نہ کریں کیونکہ زیادہ پڑھے لکھے لوگ لالچ میں بھی نہیں آتے اور ہمارے کام کرنے سے زیادہ اپنے ڈیوٹی پہ توجہ دینے لگتے ہیں ۔ کم عمر لڑکوں کو بھرتی کی جائے تو بہتر ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلحہ ، پیسے اور نام کمانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایسے لیویز والے ہوتے تو بلوچ ہیں مگر بلوچیت سے اتنے واقف نہیں ہوتے ایسے لوگ بڑے شوق سے اپنے کام چھوڑ کے آئی ایس آئی کے لیئے کام کرنے کی خاطر بہت جلد ہی تیار ہوتے ہیں۔

ایسے بےشعور لوگوں کو بھرتی کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے محلے ، گاٶں یا شہر میں خود کو بڑا اور طاقتور ظاہر کرنے کے شوق میں ہر طریقے سے استعمال ہونے کے لیئے ہر قیمت پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

گُڈ ۔۔۔۔ میں نے بھی خالد کو بتایا ہے کہ دوران بھرتی خود جاکے نئے امیدواروں کو دیکھے اور خود انہیں بھرتی کروائے اور ڈی سی کو بھی بتائے کہ انہیں سخت ترین ٹریننگ دلوائے اور ہیوی گن بھی انہیں مہیا کرے تاکہ ان میں چاپلوسی اور مخبری کرنے کی شوق پیدا ہو اور ہم انہیں خوب استعمال کرسکیں ۔

باس یہ پچھلے دو تین بیچ کے دو سو تین سو اہلکار بھرتی ہوئے ہیں ان لوگوں نے تو ہمارے کام کافی آسان کیئے ہیں نئے مخبر کی بات ختم ہوتے ہی عدنان نے کہا ۔۔۔۔ کوشش کرو انہیں خوب استعمال کرو اور اکثر کاروائیاں انہی سے کروالو تاکہ ہماری شناخت چھپی رہے اور کاروائیاں بھی ہوتی رہیں ۔

آج مجھے میرے سنگت کافی شدت سے یاد آرہے تھے ۔یادیں بھی کچھ عجیب چیز ہوتی ہے ۔ جو پرانی ہوتی ہیں وہی یادیں کہلاتی ہیں۔ کیوں کہ نئی تو کوئی یاد نہیں ہوتی۔ لیکن یاد پھر بھی کیا عجیب چیزہے۔ ہنساتی ہے، رلاتی ہے، تڑپاتی ہے۔ کبھی کبھی مر جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

کچھ یادیں اندر ہوتی ہیں۔ جب باہر آتی ہیں ، کچھ نہ کچھ تباہی ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔ ان یادوں کی نفسیات بھی کچھ عجیب ہے۔ آپ اپنے دوستوں کے ساتھ گزرے کسی خوشی کے لمحے کو یادکریں تو رونا آجاتا ہے اور کسی رونے کے لمحے کو یاد کریں تو ہنسی آجاتی ہے۔

مطلب کہ انسان کے موجودہ حالت کو الٹ پلٹ کے رکھ دینا یاد کا کام ہے۔ اگر سوچا جائے تو یاد حال پر چھا جاتی ہے اور اگر حال میں گم ہوں تو یاد ماضی میں ڈوب جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں، آنسو ، آنکھوں کو خوبصورت بناتے ہیں، درد دل کو قیمتی بناتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یاد ہی حال کو خوبصورت اور یاد ہی حال کو دردناک بناتی ہے۔ یاد ، یاد ہی ہوتی ہے۔ اچھی بری نہیں ہوتی، بس یاد ہوتی ہے۔ وہ حالات جس میں آپ اسے یاد کرتے ہیں اسے اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایک ہی یاد کسی کے لئے ہنسی کا سبب بنتی ہے اور کسی کے لئے رو نے کا اور میرے جیسے لوگوں کے لئے بے چینی کا ۔

کچھ یادیں انسان کے روٹین کا حصہ بن جاتی ہیں اور اسے ان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ مگر کچھ یادیں اچانک آتی ہیں اور تند و تیز آندھی کی طرح سب کچھ اپنے ساتھ اڑا لے جاتی ہیں۔ دوستوں کی یادیں بہت رلاتی ہے۔

میں اپنی آنکھوں سے مسلسل ظلم کو دیکھتا رہا اب تو ہر چیز بالکل میرے سامنے تھا ، کبھی کبھی دل خوف سا محسوس کرتا ہے ایسا نہ ہو کہ انجانے میں ۔۔۔ میں خود ہی اس جرم میں شریک نہ ہوجاٶں۔ میں اکیلا تھا ، بالکل اکیلا ، بے سہارا حتی کہ کوئی ایسا دوست ہی نہیں تھا جس سے میں بات کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکوں ۔ دل کر رہا تھا کہ آج میں چند گھنٹوں کے لیے اڑجاٶں ۔۔۔۔ ہربوئی کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا شور و پارود پہنچوں ۔۔۔۔ سنگتوں سے ملوں ، ان کے ساتھ بیٹھ کے بکری کی خالص دودھ کی بنی چائے پیئو ، ان سے ہزاروں موضوعات پہ بات چیت کرو ، ان سے بحث کروں ، انہیں ہر چیز سے آگاہ کروں ، انہیں عدنان اور خالد جیسے بے ضمیر لوگوں کی حقیقت بتاٶں ، انہیں بتاٶں کہ یہ لوگ کیسے بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرکے ان کے بے بس مائوں کو بے قصور رلاتے ہیں ، اپنے سنگتوں سے ان کے وجود کو جلد از جلد اس پاک دھرتی سے ختم کرنے کا کہوں۔
جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔