اسرائیل-حزب اللہ تازہ جھڑپیں، غزہ جنگ کے پھیلاؤ کابڑھتا ہوا خدشہ

201

اسرائیل اور حزب اللہ نے سرحد پار سے تازہ فائرنگ کا تبادلہ کیا، جبکہ اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حملے کے منصوبوں کی منظوری کے انکشاف اور ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنے دشمن پر راکٹوں کی یلغار کے دعوے کے بعد کسی علاقائی جنگ کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

امریکی ایلچی آموس ہوچسٹین نے جو خطے کے دورے پر ہیں کشیدگی میں “فوری” کمی کی اپیل کی۔ جب کہ لبنان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر جینین ہینس پلاسچارٹ نے ملک کے جنوب میں اقوام متحدہ کے امن دستوں کا دورہ کرنے کے دوران دونوں فریقوں سے کسی تصادم سے گریز کرنے کی اپیل کی۔

خصوصی کوآرڈینیٹر کا UNIFIL کے پہلے دورے میں خیرمقدم کرتے ہوئے، مشن کے سربراہ اور فورس کمانڈر، لازارو نے تمام فریقوں پر، کسی دیرپا سیاسی اور سفارتی حل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر عمل کرنےکی اپیل کی۔

جمعہ کی علی الصبح ،لبنانی میڈیا نے ملک کے جنوب میں اسرائیل کے تازہ حملوں کی اطلاع دی۔

حزب اللہ نے کہاہےکہ اس نے جمعرات کو اسرائیل کے اس مہلک فضائی حملے کے جواب میں شمالی اسرائیل پر درجنوں راکٹ داغے جس کے بارے میں اسرائیل نے کہا کہ اس میں گروپ کے ایک کارکن کو ہلاک کر دیا گیا۔ حزب اللہ نے دن کے دوران اسرائیلی فوجیوں اور ٹھکانوں پر کئی دوسرے حملوں کا بھی دعویٰ کیا۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے جیٹ طیاروں نے ہتھیاروں کی دو ذخیرہ گاہوں اور گروپ سے تعلق رکھنے والے کئی دیگر مقامات کو نشانہ بنایا، اور یہ کہ اس نے “جنوبی لبنان کے متعدد علاقوں میں خطرات کو دور کرنے کے لیے توپوں سے گولہ باری کی۔”

فوج نے کہا کہ اس نے نصف شب سے ذرا ہی پہلے “لبنان سےگزر کر آنے والے ایک مشکوک فضائی ہدف کو کامیابی سے روکا ہے۔”

سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد جب سے غزہ جنگ شروع ہوئی ہے ، حزب اللہ اور اسرائیلی فورسز کے درمیان تقریباً روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے، اور حملوں کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیز بیانات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔

اب جب غزہ کی پٹی میں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے اتحادی حماس کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی مہم کو تقریباً نو ماہ ہو چکے ہیں، ماہرین کسی وسیع تر جنگ کے امکان پر منقسم ہیں۔

اسرائیل کے اہم اتحادی، امریکہ نے سرحد پر جنگ کے کسی بھی پھیلاؤ کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

ایک بیان کے مطابق واشنگٹن کا دورہ کرنے والے اسرائیلی حکام کے ساتھ ایک ملاقات میں، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نےلبنان میں مزید کشیدگی سے بچنے اور کسی سفارتی حل تک پہنچنے کی اہمیت پر زور دیا جس سے اسرائیلی اور لبنانی خاندانوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کا موقع مل سکے۔

بدھ کو ایک ٹیلی ویژن خطاب میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے خبردار کیا تھا کہ اگر کوئی وسیع تر جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل میں ہمارے راکٹوں سے کوئی جگہ نہیں بچے گی”۔

بدھ کو حسن نصر اللہ نے خطاب میں قبرص کو بھی دھمکی دی کہ اگر اس نے اسرائیل کو فوجی اڈے یا ایئر پورٹ استعمال کرنے کی اجازت دی تو اسے جنگ میں شامل تصور کیا جائے گا۔

حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ قبرص اپنے ہوائی اڈے اور فوجی تنصیبات لبنان پر حملوں کے لیے اس کے دشمن اسرائیل کے لیے کھول رہا ہے۔ اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ قبرص کی حکومت جنگ کا حصہ بن گئی ہے۔

یورپی یونین کے رکن قبرص میں ایک ائیر بیس سمیت دو برطانوی اڈے ہیں، لیکن وہ برطانیہ کے خودمختار علاقے میں ہیں اور قبرص حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

جمعرات کو، قبرص کی حکومت کے ترجمان، کونسٹن ٹنوز لیٹم بیوٹکس نے لبنان سے متعلق تنازعہ میں ممکنہ شمولیت کے کسی بھی خیال کو “مکمل طور پر بے بنیاد” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

قبرص میں برطانوی ایئربیس سے جنگی طیارےامریکی فورسز کے ساتھ مل کر یمن کے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر حملہ کر چکے ہیں جو کئی مہینوں سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

جمعرات کو ہی امریکی فوج نے کہا کہ اس نے یمن میں باغیوں کے دو ٹھکانوں پر حملے کے ایک دن بعد حوثی باغیوں کے کئی ڈرونز کو تباہ کر دیا ہے۔

غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان سرحدی جھڑپوں میں لبنان میں 400 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر حزب اللہ کے جنگجو تھے جب کہ 80 عام شہریوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔

دوسری جانب حزب اللہ کے حملوں کے سبب اسرائیل میں 16 فوجیوں اور 11 عام شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔