28-مئی-1998 ۔ زمان بلوچ

308

28-مئی-1998

تحریر: زمان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

28-مئی-1998ء بلوچ قوم کی تاریخ کا ایک کربناک دن جس میں پاکستان نے بیک وقت بلوچستان کی سرزمین پر پانچ ایٹمی دھماکے کئے ۔

1954 کی بات ہے جب اس زمانے کے پاکستانی وزیرِاعظم محمد علی بوگرہ نے وائٹ ہاوس میں امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی تھی اور جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے لیے یہی پاکستان کا پہلا قدم تھا جس نے آگے چل کر 28۔مئی۔ 1998ءمیں اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ بلوچ قوم پر قہر نازل کی۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان انتہاہی اہم دو فوجی معاہدوں سینٹو اور سیٹو پہ دستخط ہوے جس میں یہ معاہدہ ہوا کہ امریکہ پاکستان کو اسلحہ فروخت کریگا اور اسکے بدلے پاکستان امریکہ کو اپنے ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ‌ ان دنوں کی بات ہے جہاں ایک طرف سرد جنگ اپنے عروج پہ تھی اور دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔

1955ء کو سویت یونین (Soviet union) اور افغانستان کے درمیان باہمی تعان کا ایک اہم معاہدہ ہوا اور سویت یونین افغانستان میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کو عملی شکل دینے کی کوشش کر رہی تھی ۔ یہ عمل سرمایہ دار ممالک اور امریکہ کے لیے ناقابل برداشت وجہ بن گئی ۔ سرمایہ دار ممالک کو اس بات کا ڈر تھا کہ سویت یونین افغانستان کہ راستے گوادر سمیت خطے کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ،اس لیے انہوں نے سویت یونین کو افغانستان تک محدود کرنے کے لیے سرد جنگ کو عروج پر پہنچایا اور اس مقصد کے لیے پاکستان استعمال ہونے کے لیے تیار تھا۔

لیکن اس کے باوجود آنے والے دنوں میں امریکہ نے پاکستانی جوہری پروگرام کی مخالفت کی ۔دراصل ان دنوں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور امریکہ نے پاکستان کے بجاے بھارت کو اہمیت دینا شروع کیا تھا اور 65 اور 71 کی جنگوں میں یقین دہانی کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی ۔

جب بھٹو کا دور اقتدار آیا تو اس نے ایٹمی پروگرام پر ازسرنو کام شروع کیا اور ایک نیا ٹیم تشکیل دیا جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے بلالیا۔ مگر بھٹو ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے ۔

1977 میں جب فوج براہ راست اقتدار پر براجمان ہوا تو اسی دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا نیا باب کھل گیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان 1984 میں ایٹمی بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا ۔ان دنوں پاکستان نے ایٹمی تجربات اس لیے نہیں کیے کہ ایک جانب بھارت کھل کر اس جانب کوئی قدم نہیں اٹھارہا تھا اور دوسری جانب سویت یونین کے خلاف پاکستان اور امریکہ کی جنگ۔ اسی لیے ایٹمی تجربات سے پاکستان گریز کرتا رہا اور اور اس کے چودہ سال بعد 28۔مئی۔1998ء کو پاکستان نے بلوچستان کے علاقے چاغی پر ایٹمی تجربہ کر کے بلوچ سر زمین کے اس حصے کو بلوچ قوم کے لئے بانجھ کر دیا۔

ایٹمی تابکاری (Radiation) کے اثرات انتہائی مہلک ہوتے ہیں۔WHO کے مطابق ایسے تمام جانوروں کو ہلاک کردیا جائے جن کے بارے میں شبہ ہو کے وہ وہ تابکاری سے متاثر ہوئے ہیں ۔ اور جہاں تجربا کیا جائے وہاں سے اس پورے علاقے کے گرد ایک حصار قائم کر دیا جائے تاکہ تابکاری سے متاثرہ علاقے کے جانوروں کا گوشت ،پھل،سبزی وغیرہ ہر قسم کی کھانے پینے والی اشیاء کسی بھی صورت انسانی غذاء میں شامل نہ ہو سکے ۔اسکے علاوہ جو لوگ تابکاری سے اثرانداز ہوے ہیں انہیں اگلے پانچ سے دس سال تک اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ عرصے تک ڈاکٹروں کی متواتر دیکھ بھال میں رہنا ہوگا ۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایٹمی تابکاری کے اثرات کتنے مہلک ہو سکتے ہیں۔

اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان میں قحط سالی ،کینسرکی وبا ،قدرتی چشموں کا سوکھ جانا وغیرہ کی ایک بہت بڑی وجہ بلوچستان میں ایٹمی تجربات کو قرار دیا جاتا ہے ۔بلوچستان میں کینسر جس تیزی سے پیھل رہا ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی بلوچستان میں ایٹمی تجربات ہیں جنکی تابکاری کی وجہ سے صرف کینسر نہیں بلکہ دیگر جلدی امراض بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔ساہنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایٹمی تابکاری کینسر اور دیگر بیماریوں کی ایک بہت بڑی وجہ ہے جو کینسر سمیت موت کا سبب بن جاتا ہے اگر چہ یہ کم شدت میں بھی ہو تو یہ انسان کی جسم کو متاثر کرتا ہے ۔اس سے خاص طور پر بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔

بلوچستان میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ1998ء میں پاکستانی ایٹمی تجربات کے بعد پورے ڈسٹرکٹ چاغی ونوشکی میں کینسر سمیت دوسرے مہلک بیماریوں کی شرح میں بہت اظافہ ہوا ہے۔کینسر ،خاص کر جلد کا کینسر،آنکھوں کی بیماریاں سمیت زچگی میں پیچیدگیاں اورپیدائشی معذوربچوں کی شرح میں بہت اضافہ ہوچکاہے ۔اس کے ساتھ ہی ان دھماکوں سے نہ صرف انسان متاثر ہوئے بلکہ جنگلی حیات اور چراہ گاہیں تباہ ہوگئی ہیں۔ علاقے میں پانی کے چشمے سوکھ گئے ہیں اور تاریخ کے بدترین قحط سالی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن اب تک اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی ادارے نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ ان ایٹمی تجربات نے پاکستان کو تو فائدہ دیا لیکن بلوچستان میں خاص طور پر چاغی میں یہ ایک اپاہج نسل پیدا کر رہی ہے۔بلوچستان اس وقت کینسر جیسے موزی مرض کی شدید لپیٹ میں ہے اور ان میں بیشتر تعداد بچے اور نوجوانوں کی ہے ۔

بلوچستان بھر میں جان لیوا بیماریوں نے انسانی بقاء اور زندگی کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔بلوچستان کے علاقہ چاغی میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان نے نہ صرف چاغی بلکہ پورے بلوچستان کے فضاء کو زہر آلود بنایا ہے۔ واضح رہے کہ 1998 میں مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی اور بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ تھے۔ دنیا میں جہاں بھی ایٹمی دھماکہ کیا گیا یا ایٹمی حادثہ رونماء ہوا تو وہاں تابکاری کے اثرات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن بلوچستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی دن جب ایٹمی تجربات کیے گئے لیکن بلوچ قوم کے مستقبل کی اور نہ ہی ایٹمی دھماکے کے بعد مہلک اور خطرناک بیماریوں کی پرواہ کی گئی اور راسکوہ کے پہاڑوں پر دھماکہ کرکے اس خطے میں بسنے والے بلوچوں کے زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیاجسکی وجہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس علاقے کے لوگ بھوک، مفلسی سمیت خطرناک قسم کے بیماریوں کا شکار ہیں۔

بے شک یہ دن بلاچ قوم کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہےاور اس بات کی گواہی بلوچستان کا ہر فرد دیتا ہے کیونکہ اس ایٹمی تجربات کی صورت میں بلوچ قوم پر ہونے والی ظلم وستم اور اسکے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔