11 مئی یوم شہادت شہید آغا عابد شاہ بلوچ – عزت بلوچ

216

11 مئی یوم شہادت شہید آغا عابد شاہ بلوچ

تحریر: عزت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید آغا عابد شاہ۔۔۔ایک فطری مزاحمت کار۔ مجھے یاد ہے،کہ بلوچستان کے باقی علاقوں کی طرح پنجگور میں بھی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے تھے ۔سیاسی کارکنوں کےلئے زمین تنگ کردی گئی تھی ۔یکے بعد دیگرے بلوچ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری تھا۔جو آج بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے،جس کا واحد مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے۔تاکہ بلوچ أزادی پسند اور حق پرست سیاسی کارکنوں کو بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے دستبردار کیا جا سکے ۔لیکن شاید یہ اس غیر انسان درندہ صفت دشمن کی بھول اور ناقص معلومات کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ریاستی ناقص پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا جس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس بار جنگ جذبات سے زیادہ نظریاتی بنیادوں پر ان نظریات پسند سیاسی کارکنوں سے تھا جو نیچرل سولجر اور فطری مزاحمت کار تھے۔ وہ یہ تازہ دم نئی بلوچ نوجوان نسل پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے سے کئی گنا بڑے اور بے رحم دشمن سے تھا جس کا نہ کوئی ایمان اور عقیدہ تھا اور ناہی کوئی مذہب اور انسانیت ۔

ریاست اپنے پوری طاقت سے بلوچ نسل کشی میں مصروف تھا۔مگر آغا عابد شاہ بلوچ کو یہ فکر لاحق تھا کہ ہمارے بعد اس تحریک کی ذمہ داری جب آنے والے نسل کے کاندھوں پر ہوگی تو کیا وہ نسل اس قومی خوشحالی کی خواب کو تعبیر و تعمیر کے لیے پوری ایمانداری سے منزل تک پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔ یہ یقیناً کوئی عام سوال نہیں تھا اس کا تعلق مستقبل سے تھا وہ مستقبل جن کا خدو خال واضح نہیں تھا.اور ناہی ماضی مزاحمت اور قومی آزادی کے جنگوں کے اعتبار سے اتنا درخشاں تھا ،کیونکہ ماضی میں ہمیشہ تسلسل کا سلسلہ کہیں نہ کہیں تھکاوٹ ،غیر مستقل مزاجی کا شکار ہوکر ہمیشہ رک جاتا تھا اور پھر کسی اور سمت گامزن ہونے لگتا۔اس شہید عابد شاہ بلوچ کی دور اندیش نظریں مستقبل میں ٹکے ہوئے تھے ۔ان کو اپنی حفاظت کا کوئی فکر نہیں تھا۔وہ بلوچ قومی خوشحالی کے فلسفے کا ایک وژنری اور نظریاتی لیڈر تھا۔شاید اس لئے کہ بچپن میں جب وہ ابھی جبلت کے زیر اثر تھا تب وہ اپنے مادر وطن کی محبت میں سرشار اس نظریاتی کاروان کا حصہ بنا ان کی تربیت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نظریاتی اور فکری پلیٹ فارم سے ہوا۔اس لئے وہ وہ ایک غضب کا آرگنائز تھا انھوں نے اپنی دوراندیش فکری بالیدگی اور بہادری کی وجہ سے بلوچ قوم خاص بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے دلوں میں اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں اپنے لیے اعلیٰ مقام بنایا ۔وہ اسکول کے زمانے میں یونٹ سیکرٹری سے ہوتا هوا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرمین کے عہدے پر پہنچا ۔شہید عابد شاہ بلوچ پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کو بلوچ قومی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑا رکاوٹ سمجھتے تھے ،اس لئے جب ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پارلیمانی سیاست سے الگ ہو کر بی ایس او آزاد کی بنیاد رکھا تب شہید اغا عابد شاہ بلوچ ہی وہ پہلا سیاسی کارکن تھا جس نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے فکرو فلسفے کے ساتھ اپنے سیاسی وابستگی کا اظہار کیا اور بطور بی ایس او أزاد کے بانی رکن انھوں نے مکران بھر میں بی ایس او آزاد کے پروگرام کو اپنے سیاسی فہم اور فراست سے اس قدر مضبوط بنیاد فراہم کیں کہ مکران بی ایس او آزاد کا گڑھ بن گیا ۔

جب شہید اغا عابد شاہ بی ایس او سے فروغ ہوا تو انھوں نے بلوچستان نیشنل موومنٹ سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور شہید غلام محمد بلوچ اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ،کے فکر کا یہ فطری اور پیدائشی مزاحمت کار سیاسی قائد کے ولولہ انگیز قیادت میں بلوچ قومی آزادی کی سوچ گھر گھر پہنچ گیا تب ریاست اس انقلابی قوم پرست رہنما کے پیچھے پڑگیا , مُجھے اچھی طرح یاد ہے جب ان کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر یہاں سے چلا جائے ،کیونکہ ریاستی اداروں نے آزادی پسند سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا ہے ،لیکن تمام خطرات کے باوجود انھوں نے اپنی زمین اپنی قوم سے دور رہنے جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر وفا کی ایک ایسی داستان رقم کی جس کو بلوچ قومی تاریخ ہمیشہ سرخ سلام کے ساتھ یاد رکھے گی ،حالانکہ اگر شہید آغا عابد شاہ بلوچ شہادت کو زندگی پر ترجیح دیتے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے ملک بلوچستان سے باہر جاسکتا تھا مگر اس پیدائشی فدائی سرمچار نے دیار غیر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے سے زیادہ اپنے آخری دم تک اپنے گل زمین اور اپنی قوم کے لئے جان فدا ہونے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا ۔اور یوں علاقائی غداروں دو ٹکے کے ضمیر فروش غداروں کے ساتھ مل کر شہید آغا عابد شاہ اور ان کے ایک قریبی ساتھی سفیر بلوچ اور ستار بلوچ کے ساتھ دن دھاڑے ریاستی خفیہ اداروں نے ایف سی کی بھاری نفری کے ساتھ سول ہسپتال پنجگور کے احاطے کے اندر واقع ایک میڈیکل اسٹور سے اس وقت زبردستی گرفتار کرکے لاپتہ کردیا جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک غریب ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے کےلئے وہاں موجود تھا۔تقریبا ایک سال تک وہ ریاستی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز ذہنی اور جسمانی اذیتیں برداشت کرتا رہا اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ساتھیوں سمیت پنجگور کے ایک پہاڑی علاقہ سوراپ میں اس حالت میں ملے جب ان کے پورے جسم کو ڈرل مشین سے ڈرل کرنے اور بعد میں ان کے سروں پہ انتہائی قریب سے گالیاں مارنے کے بعد تیزاب سے ان کے چہروں کو مسخ کرنے کے بعد ان کو ساتھیوں سمیت ایک اجتماعی قبر میں دفنایا گیا تھا۔مگر بلوچ مادر وطن کی کوکھ سے جنم لینے والے ان جانبازوں پیدائشی اور فطری مزاحمت کار کی لاش کو بھی گل زمین نے اپنے کوکھ سے ایک بار پھر جنم دیا ۔11 مئی 2011 کو شہید آغا عابد شاہ بلوچ اور ان کے قریبی ساتھی سفیر بلوچ ،ستار بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں سوراپ کے پہاڑوں سے دستیاب ہوئے ،بلوچ عوام نے اپنے ان قومی شہیدوں کو قومی اعزاز کے ساتھ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا ۔۔۔آج ان کی برسی کے موقع پر میں شہید آغا عابد شاہ بلوچ کو ان کے اس سوال کے جواب میں سرخ سلام کے ساتھ اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے ہزاروں ساتھی آج بھی اس درندہ صفت دشمن کے ساتھ پوری قوت جوان مردی اور بہادری کے ساتھ میدان جنگ میں نبردآزما ہیں۔اور بلوچ قومی آزادی کی یہ جنگ آخری دشمن تک جاری رہے گی۔

ہزاروں سال بعد قوموں کی تاریخ میں ایسے انسان پیدا ہوتے ہیں جن کو اپنی ذات ،خاندان کے بجائے دوسروں کی فکر کچھ اس شدت کے ساتھ رہتی ہے کہ وہ شدت ان کے لیے ایک مشن اور نصب العین بن جاتا ہے،پھر ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی فطری قانون کے زیر اثر اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک جنون میں مبتلا ہوتے ہیں۔یقینا یہ قدرت کا ایک فطری چناؤ ہے،کہ وہ کرداروں کا انتخاب ایک فطری قانون کے تحت کرتے ہیں۔روزانہ سینکڑوں افراد دنیا میں پیدا ہوتے اور سینکڑوں افراد مرتے ہیں۔لیکن تاریخ کو نہ کی پیدائش سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور ناہی ان کے مرنے اور فنا ہونے کا ماتم ہوتا ہے۔میرے نزدیک پیدائش دو طریقے سے ہوتی ہے ایک تو وہ فطری پیدائش ہے جب ایک انسان ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔دوسرا وہ جب تاریخ کے کوکھ سے جب کوئی کردار پیدا ہوتا ہے۔اس لئے میں تاریخ کو کرداروں کے ماں قرار دیتا ہوں۔تاریخ کی کوکھ سے پیدا ہونا ایک اعزاز اور عنایت ہے،جس کی ہر انسان خواہش رکھتا ہے،مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ تاریخ جب کسی کردار کو جنم دیتی ہے تو اس کردار کے دل میں کوئی خواہش نہیں ہوتا اس کے برعکس اس کردار کے پاس ہمیشہ ایک ارادہ ہوتا ہے۔۔میں تاریخ کی کوکھ سے پیدا ہونے والے اس عظیم انسان کے کردار پر بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ “عابد” اپنے نام کے معنوعی اعتبار سے کسی عبادت گزار بندے کو کہا جاتا ہے جس کا سر ہمیشہ خدا کے سامنے جھکتا ہے ،اور ظالم کے سامنے ہمیشہ سر بلند اور سینہ تھان کے کھڑا رہتا ہے۔۔۔عابد شاہ۔۔اس کردار کا تجسیم تھا۔۔۔وہ اپنے سرزمین کا پیدائشی مجنوں تھا۔بلوچ قوم پرستی ان کے لیے کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھا،قوم پرستی ان کی عبادت تھی ۔وہ سیاست اور عبادت سمجھتا تھا،قوم کو خلق خدا سمجھ کر ان کی خدمت کو افضل ترین عبادت سمجھتے تھے۔بلوچ قوم کی قومی پسماندگی محرومی اور محکومی کے خلاف سیاسی شعور کے علم بردار ،اور فطری اور پیدائشی سیاسی جہد کار سماجی رضا کار ،استاد ،رہبر رہنما لیڈر ،کارکن نے اپنی پوری زندگی بلوچ قومی خوشحالی کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔اب مجھے ان کے نام کے ساتھ شہید لکھنا پڑھے گا۔مگر وہ زندگی کا ہم سفر تھا،وہ زندگی کا شیدائی تھا ان کو زندگی سے شدت سے محبت تھی۔اس زندگی کے ہم سفر سے زندگی چھین لی گئی ،زندگی سے محبت ہر انقلابی اور ہر سرمچار کا عشق ہے۔بھگت سنگھ سے پھانسی سے چند لمحہ پہلے پوچھا گیا کہ ہم تو کو پھانسی گھاٹ لے جانے کے لئے آئے ہیں،اور جاتے جاتے ان سے پوچھا گیا کہ کیا تم کو اس بات کا غم ہے کہ اب تمہاری زندگی ختم ہورہی ہے۔۔تو بھگت سنگھ کہا ہاں بہت زیادہ ۔۔جیل انتظامیہ کے اہلکار نے پوچھا پوری زندگی تو تم نے زندگی کی کبھی پرواہ نہیں کی ،تمہیں ہمیشہ سرمچاری کی حالت دیکھا کہ زندگی ہتھیلی پر رکھا ہو تم نے ۔۔۔بھگت سنگھ کہا مجھے دکھ اس بات کا نہیں کہ میں میری زندگی ختم ہو رہی ہے غم اس بات کی ہے کہ میں اپنے کام کا ہزارویں حصے کا کام بھی نہ کرسکا اور موت کو گلے لگا رہا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میں مزید زندہ رہتا اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے مزید شدت سے کام کرتا۔

عابد شاہ انقلابی تھا۔ان کو زندگی سے اس لئے عشق تھا کہ وہ زندہ رہ کر قومی عمل اپنا مذید کردار ادا کرتا۔مجھے یقین ہے کہ شہید کھبی نہیں مرتے وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں ۔عابد شاہ کے کردار سے پریشان بیرونی قبضہ گیر اور ان کے مقامی دلالوں کا خیال تھا کہ بلوچ سیاسی جہد کاروں شہید کرکے وہ حق اور طاقت کے درمیان جنگ میں اپنے ریاستی طاقت کے زریعے حق کو شکست دے سکتے ہیں۔لیکن تاریخ ایک گواہی ہے کہ جیت ہمیشہ سچ کی رہی ہے یہ ایک فطری قانون ہے اور اس کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔آج عابد شاہ بلوچ جسمانی طور پر موجود نہیں مگر اس کی سوچ ،فکرو فلسفہ ایک مشعل راہ کی صورت میں موجود ہے جس پر چلنے ہوئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے اپنے خون سے ایک نئی تاریخ رقم کرکے ان قبضہ گیر قوتوں کو یہ پیغام پہنچایا کہ قومیں اس وقت فنا ہو جاتی ہیں جب قومی شعور ختم ہو جاتی ہے ۔شہید آغا عابد شاہ بلوچ کے شہادت کے 13 سال بعد جب ہم آج موجودہ قومی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مقصد کے پیش نظر شہید آغا عابد شاہ بلوچ اور دیگر ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا گیا ان کو بلوچ قومی تحریک سے جسمانی جدا کیا گیا تاکہ بلوچ قومی شعور کو ختم کیا جاسکے تو ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے بلوچ قومی شعور اب اس قدر مضبوط ہوچکی ہے کہ وہ آوازیں جو بلوچ قومی شناخت اور قومی سوال کے لیے بلوچستان میں سنائی دے رہی تھی اب اس آواز کی گونج دنیا بھر میں بلوچ قومی آزادی کی شکل میں گونج رہی ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔