ہمیں ہمارے ملک میں نہیں سنا گیا مگر آج ساری دنیا سن رہی ہے – ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

837

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ناروے میں PEN ناروے، ورلڈ ایکسپریشن فورم، اور یوٹیا آئی لینڈ کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر منعقد تین روزہ سیمینار میں شریک ہیں۔ سیمینار کے پہلے روز ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ “ان گذشتہ دو دہائیوں کے دوران، انسداد بغاوت کی کارروائیوں اور امن کے نام پر، بلوچ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر طالب علم، انجینئر، ڈاکٹر، سیاسی کارکن اور صحافی ہیں، کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔”

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے لاپتہ ہونے والوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنے میں دشواری پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست نے اقوام متحدہ یا ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بین الاقوامی گروپوں کو اس انسانی المیے کی تحقیقات کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے مزید کہا “جب مقامی کارکنوں اور حقوق کے گروپوں نے تعداد کو دستاویزی شکل دینے یا اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو وہ خود غائب ہوگئے۔”

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے اس کی تحقیق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بی وائی سی رہنماء نے اپنے ذاتی تجربات بتاتے ہوئے کہا “میں 10 سال سے زائد عرصے سے جبری گمشدگیوں کے خلاف مہم چلا رہی ہوں کیونکہ جب میں نوعمر تھی تو خود جبری گمشدگیوں سے متاثر ہوئی”۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد کو پاکستانی ریاست کی ایجنسیوں نے جبری لاپتہ کر دیا تھا اور 2011 میں ان کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرے چوٹھے بھائی کو 2017 میں لاپتہ کیا لیکن تین ماہ تک بلوچستان میں مہم چلانے اور مظاہرے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے مزید کہا کہ ان کا کیس غیر معمولی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ “مجھ جیسی سینکڑوں نوجوان عورتیں ہیں۔ آج میں کم از کم یہ جانتی ہوں کہ میں یتیم ہوں اور میری ماں بیوہ ہے۔ لیکن سینکڑوں بچے، نوعمر اور نوجوان ایسے ہیں جن کے باپ، چچا یا بھائی لاپتہ ہیں۔ ہفتوں، مہینوں اور کچھ بدترین صورتوں میں سالوں، اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا نہیں۔”

انہوں نے کہا کہ ہمارے مہم کے مطالبات میں یہ شامل ہیں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور سیکیورٹی فورسز جبری لاپتہ افراد کو رہا کریں یا کم از کم انہیں کسی عدالت میں پیش کریں۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ پاکستانی حکام ان کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس نے دسمبر میں ایک ماہ سے زائد عرصے تک 1,600 کلومیٹر پیدل مارچ کرنے اور بچوں اور خواتین کے ساتھ ایک سرد شام کو اسلام آباد پہنچنے کا ذکر کیا، جہاں انہیں پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج، تذلیل اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ کنٹرولڈ میڈیا کو ان کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر انہیں ریاستی حمایت یافتہ اکاؤنٹس کے ذریعے بدسلوکی اور ٹرول کیا گیا۔ صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا اور انہیں میڈیا کوریج دینے سے روک دیا گیا، اور سول سوسائٹی کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کے پرامن تحریک کا حصہ نہ بنیں۔ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کے باوجود میڈیا نے انہیں نظر انداز کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن کی بحالی کے لیے ان کے پرامن جدوجہد جاری رہے گی اور اسے بنیادی انسانی حقوق اور انسانیت پر یقین رکھنے والے تمام گروہوں اور لوگوں کی حمایت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے PEN ناروے، خاص طور پر Urogen، جو PEN کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، سے اپنی کہانیوں اور تجربات کو شیئر کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

اس نے فخر سے کہا کہ ہماری کہانی ہمارے ملک میں نہیں سنی گئی مگر آج ساری دنیا سن رہی ہے۔