ہر گزرتا دن میرے اور میرے بچوں کے لیے غم کو مزید گہرا کررہا ہے – اہلیہ جبری لاپتہ تاج محمد سرپرہ

164

لاپتہ میر تاج محمد سرپرہ کے اہلیہ سالیہ مری نے ایک مختصر بیان میں دی بلوچستان پوسٹ (ٹی بی پی) کے ساتھ اپنی حالت زار کا اظہار کیا۔

میر تاج محمد سرپرہ اور ان کے ڈرائیور کو پاکستانی خفیہ ادارے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے 19 جولائی 2020 کو پاکستان کے شہر کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔

سالیہ مری نے اپنے بیان میں کہا کہ “جبری گمشدگی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس سے متاثرین اور ان کے خاندانوں کو ناقابل برداشت تکلیف پہنچتی ہے۔” میرے شوہر میر تاج محمد سرپرہ کی جبری گمشدگی کو تین سال اور 10 ماہ گزر چکے ہیں اور ابھی تک ان کی قسمت اور اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ تین ماہ کی حراست کے بعد، آئی ایس آئی نے شہر کے ڈیفنس کے علاقے میں میرے گھر پر چھاپہ مارا اور لوٹ مار کی تاکہ ہمارے گھریلو ملازموں کو تین ماہ تک جبری طور پر غائب کر کے ہماری پریشانی کو مزید بڑھایا جا سکے۔

میرے شوہر کی بحفاظت رہائی کے لیے اعلیٰ سیاسی ذرائع کی کوششوں، سی سی ٹی وی فوٹیج کی موجودگی اور ایف آئی آر کے باوجود ہمیں انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے شوہر کا معاملہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے بلکہ پاکستانی ایجنسیوں اور فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک واضح یاد دہانی ہے۔

سالیہ مری نے اپنے شوہر کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر گزرتا دن میرے اور میرے بچوں کے لیے غم کو مزید گہرا کرتا جا رہا ہے جو اپنے والد کی واپسی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہمارے پیاروں کی قسمت کے ارد گرد غیر یقینی صورتحال ناقابل برداشت ہے۔ ہمارے خاندان کے افراد کی عدم موجودگی ہماری زندگیوں پر روزانہ عذاب کا سایہ ڈالتی ہے۔ جبری گمشدگیوں سے خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، جس سے وہ دائمی غیر یقینی صورتحال میں پڑ جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپنے پیارے کی قسمت نہ جاننے کا درد ایک مستقل عذاب ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں نے کئی دہائیوں سے بلوچ بے گناہوں کی جبری گمشدگیوں، تشدد اور قتل کے ظالمانہ انداز کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ چہرے مختلف ہو سکتے ہیں، درد عالمگیر رہتا ہے۔ پاک فوج اور ایجنسیوں نے ہمارے خلاف جو مظالم ڈھائے ہیں وہ ناقابل معافی ہیں۔ ان ناانصافیوں کا ازالہ اور احتساب کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔

سالیہ مری نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں ان کے شوہر اور تمام لاپتہ افراد کی بحفاظت رہائی کے لیے وکالت میں فعال کردار ادا کریں۔