کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5449 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم جاگ گیا ہے بلوچستان کے بچے بچے کو اپنی غلامی کا احساس ہو گیا ہے ہر کوئی نیند سے بیدار ہو گیا ہے ہر کوئی لاپتہ افراد کی بازیابی کا نعرہ لگا رہا ہے اور اس جدوجہد میں خون بہتا ہے اور خون بہتا رہے گا ان عظیم لوگوں کا خون بہتا رہے گا اور یہ خون ضائع نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ ان شہداء کے خون سے جدوجہد کی جڑیں مضبوط ہونگے غلامی کی تاریخ رائے روشن کرن میں بدل رہے ہیں اس جدوجہد میں ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اپنے پیاروں کی سلامتی کے لیے خون بہایا ہیں دنیا میں ایسے بہت کم انسان ہوتے ہیں جو انسانیت کے خاطر مظلوم قوموں کی خاطر اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور کٹن دشوار راستوں میں رہنے اپنی جاں کا نظرانہ پیش کرتے ہیں ۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچ نوجوانوں میں ڈاکٹر ،انجینیئرز ، قانون دان اور زندگی کے مختلف شعبات سے تعلق رکھنے والے ہیں آج ہمارے دشمن نے بلوچ نوجوانوں کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگیا ہے ان کی سوچ فکر نظریہ ریاست کو پریشان کر دیا ہے ریاستی فورس اس لیے بلوچستان میں آپریشن کو تیز کر رہی ہیں بلوچستان کی تمام علاقوں میں اپریشن جاری ہے پاکستان اپنی ناکامی کے بعد بھی بلوچ علاقوں میں آپریشن کو اور تیز کر دیا ہے اس آپریشن سے کئی خواتین بچے شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور کئی جبری پتہ ہوئے ہیں روز ہزار بلوچ جبری لاپتہ اور شہید کیے جا رہے ہیں یہ سوال ہر آدمی کے ذہین میں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ریاستی خدمات گزاری کر رہے ہیں اور بلوچ عوام کو ورغلا رہے ہیں تو اب ان کی احتساب لازمی ہو چکا ہے۔