کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5448 ویں روز جاری رہا۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اظہار یکجہتی کرنے والے مختلف وفود سے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے متعدد قراردادیں پاس ہو چکی ہیں جن کی روح سے جبری گمشدگی کو ایک سنگین جرم قرار دیا جاچکا ہے اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی انسانی حقوق کی سنگین اور مکمل خلاف ورزی ہے جبکہ ایسے اعلامیہ کے ایک آرٹیکل کے مطابق جبری گمشدگی کے تمام کاروائیاں فوجداری قوانین قوانین کے تحت جرم کے زمرے میں آتے ہیں اور قابل سزا ہے جبری گمشدگی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ انسانیت کے خلاف منافی عمل ہے ایسا کوئی عمل نہ قابل قبول ناقابل برداشت ہے چاہے وہ دہشت گردی کاؤنٹر کرنے کےلئے کی جائیں یا کسی جائز مطالبے کے لیے اٹھائے نہیں جانے والی آواز دبانے کے لیے ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان دنیا کو بلیک میل کر کے سفاکیت سے بلوچ نسل کشی میں مصروف عمل ہے بلوچستان پاکستانی خفیہ ادارے آئے روز بلوچ فرزند اور دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر کے لاش ویرانوں میں پھینکے میں مصروف ہیں۔
2001 سے لے کر اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کو پاکستانی فورسز بھرے بازار ، مسافر گاڑیوں اور تعلیمی اداروں سے جبری طور پر اٹھا کر غائب کر چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں بزرگوں کے بھی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ہزاروں بلوچ اسیران کے تشدد زد لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئے ہیں جس کا اعتراف ایمنسٹی انٹرنیشنل اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق امریکی محکمہ خارجہ پاکستان سمیت کی اپنی سپریم کورٹ حتٰی کے پاکستانی پارلیمنٹ بھی کرچکی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر اقوام متحدہ واقعی میں حقیقت پتہ لگانا ہے تو پاکستانی حکومت کے پروپیگنڈہ پر کان دریں ہوئی خود جا کر براہ راست لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کریں۔