ڈی جی آئی آیس پی آر کا ودود ساتکزئی اور کریم جان کے نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہونے کا الزام درست نہیں ہے ۔ وی بی ایم پی

388

وائس فار بلوچ مسنگ پرسز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وی بی ایم پی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف 2009 سے پرامن اور ملکی قوانین کے تحت جد و جہد کررہی ہے اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ڈی جی آئی آیس پی آر نے لاپتہ افراد کے حوالے سے جو الزامات لگائے ہیں ہم ثبوت کے ساتھ انکا جواب دیں۔

انھوں نے کہاکہ ڈی جی آئی آیس پی آر کے ترجمان نے اپنے پریس بریفنگ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے الزامات لگاتے ہوئے کہا ہےکہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہیں انکے نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں موجود ہے اور بلوچستان کے علاقے مچھ اور گوادر میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور کریم جان کے نام بھی لاپتہ افراد کے لسٹ میں شامل تھے ۔

 جسے ہم تنظیمی سطح پر مسترد کرتے ہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ودود ساتکزئی 12 اگست 2022 میں جبری گمشدگی کا شکار ہوا تھا اور 9 فروری 2023 میں بازیاب ہوئے انکی بازیابی کی تصدیق وی بی ایم پی اور انکے اہلخانہ نے کیا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے ودود ساتکزئی کے بازیابی کے بعد اسکے اہلخانہ سمیت کسی بھی تنظیم نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جبری لاپتہ ہے اور نہ کسی تنظیم کے لاپتہ افراد کے فہرست میں اسکا نام شامل تھا ودود ساتکزئی اپنے بازیابی کے بعد کب اور کس طرح بی ایل اے کو جوائن کیا تھا اسکے حوالے سے ہمیں علم نہیں ہے۔

انھوں نے کہاکہ کریم جان کو فورسز نے 23 مئی 2022 میں جبری لاپتہ کیا تھا اور 31 جولائی 2022 کو سی ڈی ٹی کی طرف سے ان پر دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام لگا کر انکی گرفتاری ظاہر کی گئی تھی تاہم انکی جبری گمشدگی کی ناقابل تردید شوائد کی وجہ سے عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بجا طور پر بری کردیا اور 17 اگست 2022 کو عدالت کے حکم پر کریم جان کو رہا کیا گیا کریم جان کے رہائی کے بعد اسکے اہلخانہ اور نہ کسی تنظیم نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ جبری لاپتہ ہے اور نہ لاپتہ افراد کے فہرست میں انکا نام شامل تھا ۔

پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ڈی جی آیس پی آر نے اپنے پریس بریفینگ میں یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں انکا نام بھی مسنگ پرسن کی فہرست میں شامل ہے فوج کے ترجمان کے اس الزام کو بھی ہم مسترد کرتے ہیں اور ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی ایسے شخص کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے جو ملک سے باہر بیٹھا ہو یہ وہ بلوچ مسلح تنظیموں کا حصہ بن کر ریاست کے خلاف لڑرہا ہوں ہم آپ معزز صحافی حضرات کو سرفراز بنگلزئی کے سلیم صحافی کے ساتھ ہونے والے ایک انٹرویو کا مثال دیتے ہیں جہاں پر سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں انکا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے ۔ تو سلیم صحافی ان سے سوال کرتا ہے کہ ایک ایسے شخص کا نام بتادے جو افغانستان میں بیٹھا ہے اور اس کا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے تو سرفراز بنگلزئی کہتا ہے کہ سفیر بلوچ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور اسکا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ سفیر بلوچ لاپتہ ہے اور نہی اسکا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے، بلکہ سفیر بلوچ کا بھائی جمیل سرپرہ لاپتہ ہے ۔ دیکھے سرفراز بنگلزئی 15 سال سے بلوچ مزاحتمی تنظیموں کے ساتھ منسلک رہا ہے اور افغانستان بھی چلا گیا تھا اب اس نے ریاست کے سامنے ہتھار ڈال دیا ہے لیکن ایک بھی ایسے شخص کا نام ثابت نہیں کرسکا کہ وہ ملک سے باہر بیٹھا ہو اور اسکے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہو کہ وہ لاپتہ ہے

وی بی ایم پی رہنماؤں نے کاکہ جب 1976 میں سردار عطاء اللہ کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو انکے ایک دوست احمد شاہ کرد کے ساتھ حساس اداروں نے شدید تشدد کے بعد غیر قانونی طریقے سے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا جو بلوچستان میں جبری گمشدگی کا رپورٹ ہونے والا پہلا کیس ہے تو اس وقت کے وزیر اعظم ذولقفار بھٹو نے اپنے کتاب میں لکھا کہ جب اس نے ملک کے طاقتور اداروں کے سربراہوں سے پوچھا کہ مجھے بتایا جائے کہ اسد اللہ مینگل اور اسکا دوست زندہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو وہ کس ادارے کے حراست میں ہے۔ ذوالفقار بھٹو نے اپنے کتاب میں لکھتا ہے کہ انہیں طاقتور اداروں کے سربراہوں کی طرف سے یہ جواب ملا کہ اسد اللہ مینگل کے خاندان کو بتایا جائے کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ افغانستان چلا گیا ہے ۔

نصر اللہ بلوچ نے کہاکہ اگر دیکھا جائے اب بھی پچاس سال گزرنے کے بعد بھی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ریاستی ادارے یہی منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ لاپتہ افراد بیرون ملک چلے گئے ہیں یا پھر وہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کا حصہ ہو کر ریاست کے خلاف مسلح کاروائیاں کررہے ہیں۔ ڈی جی آ ئی ایس پی آر کے پریس بریفنگ سے کچھ دن پہلے بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت نے پریس بریفنگ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے وہی باتیں کی تھی جو ڈی جی آئی آیس پی آر نے اپنے پریس بریفنگ میں کی ہے، اس سے حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلہ پر منفی پروپیگنڈہ کے حوالے سے صوبائی و وفاقی حکومت اور ملک کے طاقتور ادارے ایک پیج پر ہیں اور وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں بلکہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے خراب اور مزید پیچیدہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس لیے ہمیں خدشہ ہے کہ ملکی سلامتی کے نام پر بلوچستان میں ایک دفعہ پھر بھر پور طاقت کا استعمال کیا جائے گا جبری گمشدگیوں میں مزید تیزی لائی جائے گی اور پہلے سے لاپتہ کیے گیے افراد کو فیک انکاونٹر میں قتل کرکے مقابلے کا نام دیا جائے گا۔

انھوں نے کہاکہ ہم آپ لوگوں کے ذریعے ایک دفعہ پھر ملک کے طاقتور اداروں کے سربرایوں اور صوبائی و وفاقی حکومت کو کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال، جبری گمشدگیوں، لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹرز میں قتل کی وجہ سے اہل بلوچستان کے دلوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ریاستی اداروں کے ان ماورائے آئین اقدامات، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف بلوچستان میں خواتین و بچے، بوڑھے اور نوجوان سمیت تمام مکاتب فکر کے شدید احتجاج کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں اس لیے طاقتور اداروں کے سربراہوں اور صوبائی و وفاقی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بلوچستان میں میں طاقت کے استعمال اور ماورائے آئین اقدامات سے بلوچستان کے حالات بہتر نہیں ہونگے بلکہ مزید خراب ہونگے اسلیے ہم ایک دفعہ پھر ملک کے طاقتور اداروں کے سربراہوں اور صوبائی و وفاقی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے گریز کرے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے سیاسی طریقے سے حل کرنے کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ سے گریز کرے لاپتہ افراد کی بازیابی کو فوری طور پر یقنی بنانے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جن لاپتہ افراد پر الزام ہے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے جو ریاست کے مجرم ہے انہیں عدالت کے ذریعے سزا دی جائے لاپتہ افراد کو فیک انکاونٹرز میں قتل کرنے کے سلسلے کو بند کیا جائے اور جبری گمشدگی کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔