پُھلی جاوید جان ۔ رشیدہ بلوچ

227

پُھلی جاوید جان

تحریر: رشیدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اس دنیا میں جب جب ظلم کا بازار گرم ہوا تو ہمشہ وطن زاد و بہادر سپوتوں نے دھرتی ماں کا قرض اپنے خون سے ادا کیا اور جب تک سورج کی کرنیں زمین پر پڑتی رہیں گی، تب تک ایسے فرزندوں کا خون دھرتی کو روشن کرتے رہینگے۔ ان فرزندوں کا نام تاریخ میں سرخ رنگوں میں ملے گا، ایسے وطن زادوں میں ایک نام پُھلی جاوید جان عرف سنگریار کا بھی ہے۔

بلوچ تحریک جب اپنے عروج پر تھی دوسرے شہیدوں کے اور دوستوں کے ہمراہ جاوید جان بھی دنیا کی تاریخ میں سرخ رنگوں سے اپنا نام لکھنے نکلا یہ 2008 کا سال تھا۔ اس دوران اپنا ہونے کے ناطے ان کے لیے بہت کچھ سوچتا، یہ ان کے میٹرک میں پڑھنے کا وقت تھا آج بھی ہمیں وہ سکول جاتے ہوئے یاد آتا ہے کہ ہمارا بھائی بھی پڑھ لکھ کر ایک خوشحال زندگی گذارے گا۔ میٹرک کے رزلٹ کے بعد ایک اچھے کالج میں اس کا داخلہ ہوگا اور وہ اپنی تعلیم آگے جاری رکھے گا۔ اسی وقت ہم گھر والوں نے ان کا رشتہ بھی طے کرلیا تھا اور منگنی کی بات بھی ہوئی تھی ہم بہن بھائی سب گھر والے ان کے منگنی کو لیکر بہت خوش تھے کیونکہ ہمارے گھر میں پہلے اور بڑے بھائی کا منگنی تھا، منگنی کی تیاریوں میں ہم بہن بھائی گھر والے سب خوش و مگن تھے۔

لیکن جاوید جان اپنے زندگی کے مقصد کا انتخاب کر چکا تھا اس نے اپنا نام وطن کے نام کر لیا تھا اور وہ اپنے وطن کا گیت گا رہا تھا، جاوید نے اپنے سیاست کا آغاز بی ایس او آزاد سے کیا۔ دوسرے لوگ رشتہ دار وغیرہ اپنا کیریئر بنانے میں مصروف تھے جبکہ جاوید جان اپنے وطن کا نقشہ دنیا میں دیکھنا چاہتا تھا اور اس کے لیے اپنے سر گرمیوں میں ہمشہ مصروف دکھائی دیتا۔ ہمیں بھی ان کے سر گرمیوں کا پتہ چلتا گیا وہ اکثر مجید جان اور سگارِ بلوچ امیر بخش لانگو کا ذکر بڑے شان سے کیا کرتا تھا، وہ مجید جان، امیر بخش و باقی سارے شہیدوں میں کھویا ہوا ہوتا تھا۔

جب ہمارے خاندان کے بڑے لوگوں؛ والد، چاچا کو اس راستے کا پتہ چلا تو وہ ہمشہ جاوید جان کو اس راستے سے روکنے کی کوشش میں ہوتے وہ کسی کی پرواہ کیئے بغیر اپنے کاموں میں لگا تھا۔ ہماری والدہ اور ہم سب بہنیں جاوید جان کے ساتھ کھڑے تھے آخر وہ دن بھی آیا جب ان کے سرگرمیوں کا پتہ چل گیا اور وہ اپنے کپڑے سامان اٹھا کر ہمیں رخصت کر کے خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ اس دن ایسا لگا جیسے کہ ہمارا گھر مرجھا گیا ہے۔ ہمیں بخوبی علم تھا یہ ایک ایسا کھٹن راستہ ہی جو تکلیف درد و اذیت سے بھرا پڑا ہے جبکہ ہماری والدہ ہمارا حوصلہ بنی۔

وقت گذرتا گیا دو سال بیت گئے جاوید کا نا حال نا احوال ملا ہم بہت بے چین تھے، اپنے بھائی سے بات کرتے ہوئے بہت عرصہ گذر چکا تھا آخر ایک دن اس نے ماں سے رابطہ کیا ہم گھر والوں کے لیے خوشی کا لمحہ تھا جو ہمیں آج بھی یاد ہے۔ وہ اپنے ہم فکر دوستوں کے ساتھ بہت خوش تھا یہ سن کر ہماری ماں اور بھی خوش ہوئی کہ ان کا لخت جگر اپنے قومی سنگتوں کے ساتھ بہت خوش ہیں اور اپنی قوم کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ اس دن کے بعد سے ہر ایک یا دو مہینے بعد وہ آکر ہم گھر والوں سے بات کرتا تھا اور ہمشہ خوش لگتا اور اپنے وطن کے شہید سنگتوں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتا تھا بس ہمیشہ ان ہی کے بارے میں بات کرتا۔

آخر کار 27 مئی 2016 کو ہمیں اخباروں میں پتہ چلا ہمارا بہادر بھائی جان ہمارا پُھلی جاوید جان دو دن پہلے یعنی 25 مئی 2016 کو شہادت کے مرتبت پر فائز ہوچکا ہے، وہ قومی محاذ پر درد سہتے سہتے اپنے وطن پر قربان ہوا تھا۔ ہماری ماں اور ہم سب جانتے تھے جاوید جان وطن کا تھا وطن کا ہوا۔ ماں نے اس کو وطن کے لیے اسی دن قربان کیا جب انہیں پتہ چلا کہ جاوید جان نے اپنا مقصد اپنا سب کچھ وطن کے نام کر لیا ہے۔

جب جب وطن پر ظالم ظلم کرتے رہیں گےاسی طرح جاوید جان، مجید جان، امیر جان آتے رہیں گے۔ اپنا خون دیکر اپنے وطن کو آزاد کرینگے۔ ہم گھر والوں، دوست یار، قوم وطن پرستوں کے لیے فخر کے باعث بنیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔