افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے پاکستانی فوج کے اس دعوے کو “غیر ذمہ دارانہ اور حقیقت سے بعید” قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں “حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں کی جڑ” افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان میں عدم تحفظ کے واقعات کے لیے افغانستان کو ذمہ دار ٹھہرانا سچائی سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے‘‘۔
اس سے قبل پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاکستان میں کارروائیاں کرنے والوں کی جڑیں افغانستان میں ہیں، اور ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی “عبوری حکومت” دوحہ معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کررہی ہے۔
احمد شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ داسو کے علاقے میں چینی انجینئرز پر خودکش حملے میں ملوث افراد کے گروہ کا تعلق بھی افغانستان سے ہے، ’دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو افغانستان سے کنٹرول کیا گیا جب کہ خودکش حملہ آور بھی افغان شہری تھا‘۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت قومی دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں پاکستانی فوج کے دعوے کو “سختی سے مسترد” کیا گیا اور وزارت قومی دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے ایکس پیغام میں کہا: “خیبر پختونخواہ پاکستانی فوج کی جانب سے سخت حفاظتی حصار میں چینی شہریوں کا قتل پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے یا حملہ آوروں کو فوج کے اندر سے تعاون، دونوں صورتوں میں ذمہ داری پاکستانی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت نے بھی چینی حکام کو اس معاملے کے بارے میں یقین دہانی کرائی ہے، “اور وہ (چینی حکام) بھی اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ افغان ایسے معاملات میں ملوث نہیں ہیں۔”
طالبان کی وزارت دفاع کے بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ گروپ کے جنگجو پاکستان سے افغانستان آرہے ہیں اور ان کی (پاکستان) سرزمین ہمارے خلاف استعمال کی جارہی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف نے یہ بھی کہا کہ شدت پسند پچھلے کچھ مہینوں سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سکیورٹی کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان دونوں ریاستوں میں پاکستانی طالبان تحریک اور بلوچ لبریشن آرمی حملے کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے رواں سال پاکستان میں ہونے والی شدت پسند سرگرمیوں کے بارے میں بھی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ان سرگرمیوں کی جڑیں افغانستان سے وابستہ ہیں اور اس کے جواب میں پاکستان آج افغانستان میں ملوث شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے‘ محفوظ ٹھکانوں اور مسلح حملہ آوروں کو کامیابی سے ختم کر دیا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، جس کے مطابق “پاکستان نے اس حوالے سے ‘مستند شواہد’ بھی پیش کیے ہیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔”
جنرل احمد شریف کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’’دوحہ میں کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے‘‘۔
طالبان حکام کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ طالبان حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ پاکستان اپنے مسائل کا حل اندرون ملک تلاش کرے اور افغانستان پر الزام نہ لگائے۔