نوآبادیاتی فیسٹول
تحریر: ایس کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نوآبادیاتی نظام نہ صرف تشدد سے دیسی باشندوں کو کمزور کرتا ہے، یہ ایک پورا منظم کردہ نظام ہے، جس کا اپنا ادب، تاریخ، فلسفہ، حکومت، ملٹری، عدلیہ، جھوٹی زمینی حقائق، زبان، ثقافت اور انتظامیہ ہوتی ہیں۔ یہ سب اس وقت تک مظبوط نہیں ہوتے جب تک کہ “بیانیہ” فروغ نہ پاسکے گا۔ کیونکہ نوآبادیاتی نظام ایک قابل قبول نظام ہرگز نہیں بلکہ خود کو امن پسند، انسان دوست، تہذیب یافتہ اور مذہب پسند کا ایک ایسا ڈھانچہ بنا دیتا ہے جس کے اندر رہ کر عام انسان تو دربدر رہ کر وہ خود کو پہچانے کی کوشش نہیں کرتی اور اس نظام کو قبول کرکے سوجاتی ہے۔
اگرچہ وہ حکومت کا کاسہ لیس ہو یا گھر میں بیٹھے عام انسان ہو دونوں میں فرق بس اتنا ہے کہ ایک چمچہ گری کرتی ہے اور دوسرا خاموشی سے نظام کو آکسیجن دیتی ہے۔ جب ہلچل مچ جاتی ہے تو وہاں دو طبقوں کو دیکھ لیتے ہو: ظالم اور دیسی باشندے۔
ظالم کا کام جنگ کو نہ صرف فوجیوں کی بندوقوں اور جدید ہتھیاروں سے برقرار رکھنا ہوتا ہے بلکہ یہ عدلیہ، ضلعی انتظامیہ، پولیس، قبائلی جرگہ، تعلیمی اور مذہبی داروں سے بھی مدد لیتا ہے۔ جسمانی و ذہنی حوالے سے مفلوج ہو کر کوئی بندہ یہ باآسانی قبول کرسکتا ہے کہ یہ نظام اچھا ہے، بس ہم برے ہیں۔ جس طرح سرفراز بگٹی سرعام بول دیتا ہے۔
اور دیسی باشندوں کا کام بس ظلم کو للکارنا ہوتا ہے یا تو خاموشی سے بیٹھے کبھی عدلیہ کے چکر میں یا کبھی مذہبی انتہا پسندی کی آگ سے جلتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کے بچے وہی پڑھتے ہیں جو ظالم طبقہ کے مکالمات ہیں۔ بچے گھروں میں آکر وہی خیالی ہیروز کو پڑھتے ہیں جو ان کتب میں ہیں، جو نوآبادیاتی نظام کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
آجکل یہ تعلیمی ادارے، عدلیہ، پولیس اور ملٹری کے ہر غیر انسانی عمل سے واقف انسان سوال اٹھا رہی ہے، ہر بندہ جو موجودہ حالات کا جائزہ لے رہا ہے ان کے شک و شبہات روز بڑ رہے ہیں کہ یہ نظام آخر کس لیئے اس طرح ہے؟
آج یہ سوال نہ صرف بلوچ کے دماغ پر سوار ہے بلکہ یہ ہر اس انسان کے پاس ہے جس کے اندر ضمیر ہو، جس کے اندر تھوڑا سا شرم ہو۔
آجکل ادبی پروگراموں میں نوآبادیاتی نظام کو بہت ڈسکس کرنے لگے ہیں، یہ تشدد اور قتل غارتگری کسی کو قبول نہیں۔ آج ڈیرہ بگٹی یا تونسہ شریف ہی کیوں نہ ہو وہاں بھی مکران اور کراچی کے لوگوں کی اٹھانے پہ تشویش کا اظہار کرتے ہیں، یہ بلوچ جہاں بھی ہو اپنوں کو غیروں کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکر للکارتے تو ہیں۔
دنیا کے سامنے بلوچ قومی حقائق کو الگ شکل دینے کیلئے ایک نئی پروپگنڈا لائے ہیں، ایک نئی چال اور کاؤنٹر تحریک جو ” پاکسان لٹریری فیسٹیول” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس پہلہ منعقد کردہ پروگرام کوئٹہ میں ہوتا ہے کہ جہاں ہمارے ادیب، شعرا، اور پارلیمانی لوگ ساتھ بیٹھ کر اپنے گردنوں پہ فیسٹول کے کارڑوں کو ٹائی کی طرح لگا کر مرچ مسالہ والی باتوں کو سناتے ہیں لیکن قومی حقائق سے دور رہ کر سالا منہ کو دبا کر باتیں کرتے ہیں کہ کہیں ظالم کو غلط نہ لگے۔ واہ کیا ادبی لوگ ہیں، رے!
یہ نہ صرف ادبی مشاعرہ ہوا ہے بلکہ یہاں تو اس لڑکی کو بھی لائے کہ جو کل نوآبادیاتی پروپگنڈوں کو فروغ دیکر فلموں میں بلوچ کو غلط پیش کریگی، اس لڑکی کو لائے جو شہر کے مست جوان لڑکوں کو پسند ہے، جو جوانوں کے ہوش اڑا کر چلی جاتی ہے۔ یہ فیسٹول جو چند من گھڑت کہانیوں کا فیسٹول اور نوآبادیاتی پروپگنڈوں کو فروغ دینے کا ہے یہ بلوچ کیلئے نیک شگون نہیں بلکہ بربادی کا وہ راستہ ہے جو نام نہاد دانشور، شاعر اور لکھاریاں اس لیئے پسند کرتے ہیں کہ وہاں پیسے ملتے ہیں، وہاں انہیں سننے والے اسلام آباد سے آئیں گے، وہاں سرکاری لوگ ہوں گے، وہاں پٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ بلوچ جوان نہیں بلکہ وہ پنجابی یا بلوچ جوان ہوں گے جن کے کپڑوں کے قیمت سے ہمارا سال بھر کا خرچہ پورا ہوتا ہے، جو ہر بات پر تالیاں بجاتے ہیں، اور ان کے ساتھ سیلفی لیکر ان کے ناموں کے آگے بوس یاپلاں پلاں دانشور لکھ دیتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔