مشکے میں ریاستی جبر
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل مشکے دو دہائیوں سے جاری بلوچ انسرجنسی سے سخت متاثر علاقوں میں سے ایک ہے۔ مشکے میں کئی سالوں سے انٹرنیٹ سروس بند ہے جس کے سبب مشکے بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے کٹا ہوا ہے۔ میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کی رسائی نہ ہونے سے جبری کمشدگیوں اور ریاستی جبر کے واقعات دنیا تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔
پچھلے ہفتے مشکے میں پاکستانی فورسز کی لوگوں کو ہراساں کرنے اور بدسلوکی کے خلاف خواتین سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے تاکہ اپنے خاندانوں پر ہوئے جبر کو دنیا کے سامنے آشکار کیا جاسکے۔
احتجاجی خواتین کے مطابق پاکستانی فورسز علاقے سے مردوں کو جبری طور پر حراست میں لے رہی ہیں، انہیں جسمانی مشقت کا نشانہ بنا رہی ہیں، کئی عرصے سے علاقے کے مردوں کو باقاعدگی سے فوجی کیمپوں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں وہ تشدد اور جبری مشقت برداشت کرتے ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ فورسز جبری گمشدہ افراد کو بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور احتجاج کی پرامن نوعیت کے باوجود، خواتین کا دعویٰ ہے کہ ان کی شکایات سننے کے بجائے انہیں پاکستانی فورسز کے ایماء پر مقامی ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
بلوچستان میں ایسے دن کم گزرتے ہیں کہ جب جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف احتجاج نہ ہو لیکن بلوچستان کے کئی ایسے علاقے موجود ہیں جِہاں انٹرنٹ اور میڈیا کی عدم رسائی کی وجہ سےریاستی جبر دنیا کے سامنے آشکار ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کو چاہیے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں دسترس ممکن بنائیں تاکہ اِن واقعات کو روکنے کے لئے آواز اٹھایا جاسکے۔