لیڈر شپ اور بلوچ قیادت
تحریر: دینار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کتاب ” تلوار کی دھار “ میں ڈیگال لکھتے ہیں کہ ایک لیڈر میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیۓ کہ اُس کے ماتحت افراد اس پر اعتماد کر سکیں ، اسے اپنا تحکم و اختیار منوانے کے قابل ہونا چاہیۓ ۔
لیڈر شپ سے مراد ”رہنماٸی کرنےکی اہلیت“ ہے ۔ میرین کورز (Marine corps) کے مطابق لیڈر شپ زہانت ، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فردِ واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہے ۔ لیڈر شپ کبھی بھی آسان نہیں ہوتی ۔ کوٸی بھی لیڈر اپنے کام میں کتنا بھی ماہر کیوں نہ نظر آۓ ، اس کی راہ ہمیشہ چیلنجز اور حیرتوں سے پُر ہوتی ہے تاہم لیڈر چیلنجز کا مقابلہ کبھی بھی تنہا نہیں کرتا ۔ قیادت کی تعریف ہی یہی ہے کہ قاٸد کے ساتھ ایک گروہ یا تنظیم ضرور ہوتی ہے جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیۓ کام کر رہی ہوتی ہے ۔
لوگوں کے کسی گروپ ، جماعت، تنظیم یا ادارے میں تحریک پیدا کرکےآگے بڑھنے کے لئے ان کودرست رہنمائی فراہم کرنا تاکہ وہ طے شدہ منزل کو پاسکیں، لیڈرشپ یا قیادت کہلاتا ہے۔یعنی بصیرت اور وژن کی بنیاد پر لوگوں کو کسی اہم مقصد پر جمع کرکے ان میں تحریک پیداکرنا اور پھر ان کو منزل کی طرف بڑھانا لیڈرشپ ہے۔ جوشخص یہ سرگرمی سرانجام دے اسے قائد یا لیڈرکہتے ہیں۔ قیادت کا بنیادی مقصد لوگوں کودرست رہنمائی فراہم کرنا اور مسائل کے حل میں ان کی مددکرنا ہوتا ہے۔لیڈرشپ جب اہل ، باشعور،با صلاحیت ، باکرداراور دیانتدار ہو تو لوگوں کے انفرادی مسائل اور قوموں کے اجتماعی مسائل آسانی سے حل ہونے لگتے ہیں۔
لیڈر میں یہ اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہدف کا تعین کریں، اس ہدف کو حاصل کرنے میں دوسروں کو اپنی اعانت کرنے پر آمادہ کریں، اور پھر اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے اسے فتح سے ہمکنار کرا دیں۔ مگر قیادت کی تعریف ہے کیا؟ قیادت کی کوئی ایک متعینہ تعریف نہیں ہے ۔ قیادت کے بارے میں چند عمومی تصورات اور تعریفات کچھ یوں ہیں: کسی گروہ، ٹیم یا تنظیم کا مقررہ سربراہ ایک لیڈر ہوتا ہے اور بھرپور انداز میں دوسروں کو اپنی بات سمجھانے اور انہیں متحرک کرنے پر قادر ہوتا ہے ۔
لیڈر اپنی جماعت یا گروہ کو اپنے کام کے زیادہ سے زیادہ حصوں سے باخبر رکھتا ہے اور یہ بات یقینی بناتا ہے کہ ہر کارکن پوری جماعت میں ہونے والے ہر کام سے باخبر ہو۔ لیڈر بحث مباحثے اور مسابقت کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور جماعت کے لئے نئی راہیں متعین کرنے کے حوالے سے آراء پیش کرنے میں اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لیڈر کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ طرزِ قیادت ’’تقریباً جمہوری‘‘ کہلاتا ہے۔ اگرچہ لیڈر شراکت کار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مگر تمام اہم معاملات میں حتمی فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
فیصلہ کرنے کی اہلیت، خصوصاً انتہائی دبائو کے عالم میں فیصلہ کرنا ایک لیڈر کا نہایت قابل قدر وصف ہوتا ہے۔ جب کوئی مشکل فیصلہ درپیش ہو تو اس ہدایت کو ذہن میں رکھئے جو آپ کو شروع میں دی گئی ہے۔ آپ کے پاس کام کے بارے میں مکمل حقائق ہونے چاہئیں، تبھی آپ صحیح اور آسان فیصلہ کر پائیں گے۔ لیڈر اس لئے منتخب کئے جاتے ہیں تاکہ وہ ایک ٹیم، ایک تنظیم یا ایک جماعت کی قیادت کریں۔ اکثر آپ کو ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوگا جہاں آپ کے ساتھی آپ کے ہمراہ نہ ہوں گے، مثال کے طور پر، جماعتی سطح پر کوئی اعلیٰ سطحی میٹنگ۔ یہاں آپ کا شخصی تحکم ان کارکنوں کا نمائندہ اور آئینہ دار ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کی ذات پر اعتماد کیا ہے۔ حقیقت پسندی کا دامن مت چھوڑیئے، مگر ہر کام تقدیر پر مت چھوڑ دیجیے۔ اگر آپ ہر معاملے میں قنوطیت یا منفی سوچ کا مظاہرہ کریں گے تو آپ کے ماتحت اور بالادست دونوں کا آپ پر اعتماد جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ صورتِ حال ہمیشہ مثالی نہیں ہوتی، مگر لیڈر کی حیثیت سے آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ صورتِ حال کو بہتر سے بہتر انداز میں تبدیل کر سکیں۔ اسے پوری طرح سے سمجھئے اور اس کے مثبت پہلوئوں پر توجہ مرکوز کیجئے۔ لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے اہداف مقرر کرے جن کو حاصل کرتے ہوئے ٹیم ایک خاص سمت میں پیش قدمی کرتی جائے۔ لیڈر کی سوچ وسیع ہونی چاہئے تاکہ وہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اہداف کا تعین کر سکے اور اس کی بدولت اس کی ٹیم درست سمت پر اور قابل اطمینان رفتار پر نمو پائے۔
یہ تمام تعریفات اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ تاہم ان سب میں ایک بات مشترک ہے: قیادت میں صرف ایک ہی فرد کارفرما نہیں ہوتا۔ اگر افراد کا ایک گروہ آپ کی پیروی نہ کررہا ہو، آپ کی ہدایات پر عمل نہ کر رہا ہو اور آپ پر اعتماد نہ کر رہا ہو تو آپ لیڈر نہیں ہو سکتے۔ یاد رکھئے کہ ایک لیڈر کی حیثیت سے اپنے ماتحتوں، اپنی ٹیم، اپنی تنظیم، اپنے گروہ یا اپنی جماعت کو منصفانہ طور پر اور اخلاقی اصولوں کے ماتحت چلانے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ’’باس‘‘ یا ’’چیئرمین‘‘ کا خطاب مل جانے سے آپ لیڈر نہیں بن جائیں گے۔ اچھا لیڈر بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ قیادت کے نئے رجحانات کا مطالعہ کر کے اور دوسروں لیڈروں کا مشاہدہ کر کے (بشمول ان کے جو آپ کی اپنی جماعت میں موجود ہیں اور ان کے جو کہ خبروں میں نظر آتے ہیں) اپنی ذات کو مستحکم کریں اور یہ بات تسلیم کریں کہ تجربہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی قیادت کا انداز بھی بدلتا جائے گا۔ مقصدیت اور مقصد، کامیاب لیڈر شپ کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ تمام تعاریف سے قطع نظر لیڈر کے پاس ایک قابل اعتناء مقصد کا ہونا ناگزیر ہے۔ واضح مقصد کی عدم موجودی میں، لیڈرشپ اپنی سطح سے گر کر ذاتی جاہ و عظمت کے حصول کی کوشش کا روپ اختیار کر سکتی ہے ۔
قیادت کا ایک اور اہم وصف بصیرت یعنی ویژن ہوتا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ بصیرت رکھے بغیر کسی بھی گروہ یا جماعت کا لیڈر بننا ممکن نہیں… اور بصیرت کا براہِ راست تعلق مثبت سوچ اور مثبت بات کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بصیرت میں ہم اپنی مثبت سوچ اور بات کو اگلے درجے تک لے جاتے ہیں۔ صاحب بصیرت لیڈر اکثر اپنی تنظیم یا میدان میں جدت پیدا کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
لیڈر کا کام بھی ہر مسئلے کو تن تنہا حل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی اقتداء کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے تحریک فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اچھے لیڈروں کو علم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے اور وہ اپنے کام کے حوالے سے مسلسل سیکھتے رہتے اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ماں کے پیٹ سے لیڈر بن کر کوئی نہیں آتا، سب اپنے ہاتھوں سے اپنی قائدانہ صلاحیت کو تعمیر کرتے ہیں۔
لیڈر ایسا کیا کرتے ہیں جو انہیں لیڈر بنا دیتا ہے؟ کیا قائدانہ صلاحیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں؟ جی ہاں، قائدانہ صلاحیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں یعنی لیڈر شپ سیکھی جا سکتی ہے۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کیونکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں حقیقی لیڈروں کی جتنی سخت ضرورت ہے، اتنی ہی سخت قلت بھی ہے۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے اپنی تنظیم کے مقاصد کے حصول سے ہٹ کر، ایک لیڈر کی سب سے بڑی ذمہ داری نئے لیڈر تیار کرنا ہوتی ہے۔ حقیقی قیادت کا تقاضا ہی یہی ہے کہ آپ اپنے ماتحتوں کو بھی لیڈر بنا دیں۔ ایک قائد کی حیثیت سے آپ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اپنے ماتحتوں کی سرپرستی اور ان کی نمو کرنا ہے تاکہ کسی وقت، ضرورت پڑنے پر، وہ آپ کی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو آ پ کی تنظیم یا جماعت شاید اس وقت تک ہی زندہ رہ پائے جب تک کہ آپ اس کے لیڈر ہیں۔ آپ سے تربیت پانے والے افراد، وہاں سے کام کا آغاز کریں گے، جہاں آپ چھوڑ کر جائیں گے اور آپ کے مقصد کو اتنی آگے لے جائیں گے، جہاں تک آپ اسے تن تنہا پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کی جماعت یا تحریک کو زندہ رہنا اور پھلنا پھولنا ہے تو آپ کو اس کے ارکان کو بھی لیڈر بننے کی تربیت دینا ہوگی۔ کمتر درجہ کے لیڈر، دوسروں کی قائدانہ صلاحیتوں کی نمو نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر نئے لیڈر ان کی اپنی حیثیت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ اپنی جماعت، اپنے مقصد اور خود اپنی بہبود کے لئے اس اندیشے سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ ویسے بھی، خود سوچئے کہ ایک جماعت کے لئے کون زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے، ایک لیڈر یا ایک ایسا لیڈر جو دوسروں کو بھی لیڈر بنانے کا اہل ہو؟ لہٰذا جب آپ خود لیڈر بن جائیں تو لیڈرشپ کو وسعت دیں۔ اسے اپنی ترجیح بنائیں۔ نہرو اپنی کتاب ’’تاریخ عالم کی جھلکیاں‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ایک فرد اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بدولت ترقی کر سکتا ہے ۔
”ہوچی منھ“ اور ”مائوزے تنگ“ جیسے لیڈروں نے اپنے معاشروں کو ایک واضح سمت اور صورت دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ تاریخ کا رخ بدلنے میں لیڈروں کا کردار فیصلہ کن حیثیت رکھتا نظر آتا ہے۔ سیاست جدید میں، سیاسی قیادت اور طرزِ حکومت کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے، مشہور جرمن ماہر عمرانیات ماکس ویبر کی متعین کردہ درجہ بندی بے حد کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ویبر نے یہ کلیہ اخذ کیا کہ بعض افراد محض عادت کی بناء پر سیاسی قیادت کا اتباع کرتے ہیں، بعض کسی مخصوص شخصیت سے وابستگی کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں اور بعض اس لئے کہ سیاسی قیادت ان کے کسی نجی یا عوامی مفاد کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں یہ تینوں طرزہائے حکومت، مختلف انداز میں نظر آتے ہیں لیکن ویبر کی تشخیص کے مطابق، ان میں سے کوئی ایک، کسی ایک معاشرے میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ لہٰذا ویبر کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ہمیں لیڈرشپ کی تین منطقی اور مثالی اقسام نظر آتی ہیں۔ ایسے افراد جو محض عادت کی بناء پر کسی روایتی قیادت کو قانونی حیثیت دیتے ہیں، ایسے افراد جو کسی پُرکشش شخصیت سے وابستگی اور اعتماد کی بناء پر اسے قانونی حیثیت دیتے ہیں اور ایسے افراد جو اپنے مفادات کی بناء پر کسی قیادت کو منطقی اور قانونی قرار دیتے ہیں۔ جدید سیاست میں، پہلی درجہ بندی پر پورا اترنے والے قائدین میں ہمیں مذہبی لیڈر، قبیلے کے سردار، بادشاہ، جاگیردار اور اس قبیل کے دوسرے افراد نظر آتے ہیں۔ دوسری درجہ بندی میں ہمیں مائوزے تنگ، سوئیکارنو، کوامے انکروما، فیڈل کاسترو اور اسی طرح بلوچ قیادت میں نواب خیر بخش مری ، نواب اکبر بگٹی ، شہید بالااچ مری ، جنرل اسلم بلوچ جنرل شیروف بلوچ جیسی ممتاز شخصیات ملتی ہیں اور تیسری درجہ بندی میں جدید بیوروکریسی کی مختلف اشکال کے روپ قیادت و اختیار کے مراکز نظر آتے ہیں۔ ایسا عموماً ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
لیڈر شپ کے بھی کٸ اقسام ہیں پہلی قسم پیدائشی(By birth) لیڈرز کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ موروثی طور پر لیڈرشپ کے اوصاف یعنی کردار و تاثیر اپنے ساتھ لے کر پیداہوتے ہیں۔یہ زندگی میں کسی بھی مقام پرکھڑے ہوں اور کسی بھی قسم کے حالات سے دوچار ہوں لیکن ان کی فطری لیڈرشپ جھلکتی ہوئی خودبخود سامنے آجاتی ہے۔ لیڈرشپ ان کی گفتگو سے اور رویوں یا ایٹی چیوڈ سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مثلاکوئی ہنگامی صورتحا ل ہو تو ایسے لوگ خود سے سامنے آتے ہیں اورصورت حال پر قابوپانے میں اپنا کردار اداکررہے ہوتے ہیں۔
دوسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جوفطری طورپر لیڈر تو نہیں ہوتے لیکن زندگی میں اچانک افتاد ان پر ایسی آجاتی ہے یاحالات اچانک کچھ اس طرح پلٹا کھاتے ہیں کہ وہ خودبخود لیڈرشپ کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اب حالات اور مجبوری کی وجہ سے وہ لیڈر کا کردار ادا کرناشروع کرتے ہیں اور پھر کرتے کرتے لیڈرشپ کے اوصاف سیکھ جاتے ہیں یوں وہ بھی لیڈربن جاتے ہیں۔
تیسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جوپیدائشی طورپر لیڈرشپ کی صلاحیتوں کے مالک تو نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو ایسے حالات ملتے ہیں جن سے وہ لیڈرشپ سیکھ سکتے لیکن وہ شعور ی طور پراسکی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور اسے سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لیڈرز کو عمومًا ”اکتسابی“ لیڈر کہا جاتا ہے ۔
لیڈر کا تصور ہمارے معاشرے میں بہت ہی محدودمعنی کا حامل ہے عام طور پر سیاسی لیڈرز کو ہی لیڈر سمجھاجاتا ہے اس کے علاوہ لیڈرشپ کاتصور کم ہی پایا جاتا ہے۔حالانکہ لیڈرشپ کی تعریف کے مطابق دنیا کے ہرکام کی انجام دہی اور ہر میدان عمل میں قیادت کرنے کو لیڈرشپ کہا جاسکتاہے۔چاہے وہ سیاسی میدان کی قیادت ہو یاتعلیمی میدان کی، معاشی اور معاشرتی میدان کی قیادت ہو یا مذہبی میدان کی۔ گھرکے لوگوں کی قیادت ہو یا کسی ادارے کے انتظام انصرام کی قیادت ، کھیلنے والی ٹیم کی قیادت ہو یامیدان جنگ میں لڑنے والی فوج کی قیادت، کسی بزنس و کاروبار کی قیادت ہو یا سڑکوں پر ہونے والے جلسے جلوس کی قیادت ہو یاکسی اور اہم پروجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم کی قیادت ہو ۔ مسجدکی امامت وخطابت ہو یاکسی تعلیمی ادارے میں طلبا کوپڑھانے کی ذمہ داری ہو، غرض یہ سب قیادت کی مختلف شکلیں ہیں اور ان کاموں کو انجام دینے والے لوگ اپنی اپنی جگہ لیڈر اور قائد کا رول اداکرتے ہیں اور لیڈرکہلانے کے مستحق ہیں۔
صرف لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر تقریریں کرنے سے لیڈر بنا جاسکتا ہے اورنہ ہی بغیر وژن اور پلاننگ کے بلند بانگ دعوی کرنے سے لیڈرکہلایاجاسکتاہے۔ لیڈر کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے سے بناجاسکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے پروجیکٹ پر اپنے نام کی تختی لگانے سے لیڈربناجاسکتا ہے۔لیڈر کرپشن کامال اکٹھاکرنے سے بناجاسکتاہے نہ زندہ باد اور مردہ باد وغیرہ کے نعرے لگوانے سے ۔ ۔لیڈر ٹائی کوٹ پہننے اور مغربی گیٹ اپ اپنانے سے بناجاسکتا ہے نہ ہی صرف انگریزی بولنے اور اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرنے سے بناجاسکتاہے۔لیڈرشپ گریڈ، عہدے ،پیسے اور اتھارٹی کی محتاج ہے اورنہ ہی ہائی لیول پروٹول کے ساتھ گھومنے کی محتاج ہے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پھر حقیقی لیڈرشپ کیا ہے …….؟
اس کا جواب یہی ہے کہ حقیقی معنی میں لیڈر وہ ہے جس میں کردار اور تاثیر ہو اور وہ اجتماعی مفاد کا پاسبان ہو۔اس میں ایمان داری اور دیانتداری کے اوصاف ہوں،جس میں قربانی اور خدمت کا جذبہ ہو ، جس میں ذاتی مفاد پر طے شدہ ہدف کے حصول کاجذبہ حاوی ہو۔جس میں وعدے کی پاسداری ہو ، جس میں منزل کو پانے کی جستجو اور لگن ہو، جس کا اپنا دامن ہرطرح کی آلودگی سے صاف ہو اور وہ لوگوں کے لئے رول ماڈل ہو۔ وہ ٹیم کاحصہ بن کررہتا ہو اور عسر و یسر میں اپنی ٹیم کو کبھی مایوس نہ کرتاہو۔ وہ وژنری انسان ہو جو حال میں رہتے ہوئے مستقبل سے آشنائی رکھتا ہو۔
وہ قوم ، وہ ادارہ ، وہ جماعت، وہ تنظیم وہ لشکر اور وہ گروہ خوش قسمت ہے جس کے پاس بہترین قائد ، اچھارہنما اور حقیقی لیڈر موجودہو۔ حقیقی لیڈر جس کمیونٹی کے پاس ہوتا ہے وہ کمیونٹی دنیا میں ضرور ترقی کرتی ہے، اعلی مقام حاصل کرتی ہے۔ اور جو کمیونٹی بدقسمتی سے ایسی لیڈرشپ سے محروم ہو وہ دنیا میں مستحکم ہوپاتی ہے نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ا س کی بے شمار مثالیں ہماری دنیا میں موجود ہیں۔ مذہب اسلام دنیا کے ہر میدان میں سرچشمہ ہدایت ھے. اسلام نے طریقہ نماز باجماعت سے لیڈر شپ کا قانون واضح کردیا کہ …….
“بلاشبہ اک اکیلا بندہ پوری جماعت کا رہبر و رہنما بن سکتا ھے مگر شرط مقرر ہے کہ وہ بندہ متقی و باکردار ہو”
لیڈرشپ کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ جب لیڈر شیر ہو اوراس کے پیچھے بھیڑیں بھی چل رہی ہوں تو وہ اپنے آپ کو شیرجیسا محسوس کرتی ہیں اور شیروں جیسا رویہ اپناتی ہیں کیونکہ ان کا لیڈر شیرہے۔ اس کے برعکس اگر لیڈر بھیڑ ہو اور پیچھے سارے شیر چل رہے ہوں تو بھی وہ اپنے آپ کو اندر سے بھیڑ ہی محسوس کرتے ہیں اور بھیڑوں جیسا رویہ اپناتے ہیں، کیونکہ ان کا قائد اور لیڈر بھیڑ ہے۔بالکل اسی طرح جب انسانوں کا لیڈر شیرجیسا ہوتا ہے باکردار اور باصلاحیت ہوتا ہےتو وہ اپنی بھیڑوں کو بھی شیربنادیتا ہے لیکن اگر لیڈر بھیڑ کی طرح بے ہمت ہو، حکمت وبصیرت اور شعور سے خالی ہو، تعیش پسندی اور سستی وکاہلی کا شکار ہو،اس میں کرداراور صلاحیتوں کا فقدان ہوتو وہ اپنے پیروکاروں کی صلاحیتوں کو بھی ڈبودیتا ہےلہذا لیڈر شپ بہت اہم چیز ہے۔
بلوچ لیڈرشپ کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جاۓ تو نواب نوروز سے لیکر آج تک کٸ لیڈر گزرے ہیں جو اپنے قابلیت کے بنیاد پر اس جاری جدوجہد کی سفر کو آگے لے گٸے ہیں گوکہ کچھ خامیاں بھی نظر آتے ہیں مگر بلوچ آج بھی اپنے لیڈر شپ پر فخر محسوس کرتا ہیں ۔ بلوچ لیڈر شپ میں کٸی ایسے لیڈر گزرے ہیں جنہوں نے اس جدوجہد میں نہ صرف خود کو بلکہ اپنے پوری خاندان کو اس راہ میں قربان کردیۓ ہیں جن میں ایک تازہ مثال استاد کی ہے استاد میں ایمان تھا کہ ہمارہ بقا ہتھیار اٹھانے میں ہے جنگ کو مُنظم کرکے ہم اپنے لوگوں اور سرزمین کا دفاع کرسکیں گے اور وہ آخری دم تک اسی قول پر ڈٹا رہا اور قوم کی وقتی مایوسیوں کو ختم کر دیا ۔
ان صفحات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ہر بلوچ کو یہ سوچنا چاہیۓ کہ یہاں بتائے گئے اصولوں کو آپ خود اپنی ذات پر کیسے منطبق کر سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ اصول صرف سیاسی لیڈروں پر لاگو نہیں ہوتے، ہر طرح کے لیڈر کے لئے ان کی افادیت یکساں ہے۔ آپ کسی کاروبار کی قیادت کر رہے ہوں، کسی حکومتی شعبے کا انتظام و انصرام کر رہے ہوں یا محض ان اصولوں کو اپنے گھر کی حد تک آزمانا چاہتے ہوں، یہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔ جب ہم کامیاب، اعلیٰ مرتبے کے حامل قائدین بارے میں سوچتے ہیں تو ہم نواب خیر بخش مری اور اس کے شاگرد جنرل اسلم بلوچ جیسے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں، جنہوں نے مشکل ادوار میں اپنی قوم کی رہنمائی کی ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔