بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جبری لاپتہ آصف بلوچ، رشید بلوچ اور سلمان بلوچ کی باحفاظت بازیابی کے لئے مہم چلائی گئی، مہم میں سیاسی و سماجی رہنماوں، صحافیوں، وکلاء سمیت زندگیوں کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں حصہ لے کر اپنے خیالات کا اظہار کیا، انہوں رشید بلوچ آصف بلوچ اور سلمان بلوچ سمیت تمام جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے جبری لاپتہ کیے گئے آصف بلوچ، سلمان بلوچ اور رشید کا ٹھکانہ چھ سال سے نامعلوم ہے۔ اس کے بعد سے، سائرہ ان کی محفوظ رہائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، لیکن ان کی فریادیں اور التجاؤں کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا خاندان دکھ اور درد کی زندگی گزار رہا ہے۔ جبری گمشدگی کے ظالمانہ اور پیچیدہ جرم نے ہمارے معاشرے کو غیر مستحکم کر دیا ہے جسے اب ختم ہونا چاہیے۔
پشتون قوم پرست رہنماء سابق سینیٹر افرسیاب خٹک نے کہا ہے کہ سویلین ایگزیکٹو کے بے اختیار نمائندے ہر عدالتی کارروائی میں لاپتہ افراد کی رہائی میں پیش رفت کا وعدہ کرتے ہیں لیکن غلط ثابت ہوتے ہیں کیونکہ خاکی زار قانون کی پاسداری سے انکار کرتے ہیں۔ اصل پیش رفت مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
انسانی حقوق کے معروف کارکن ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے کہاہے کہ رشید کی والدہ اپنے بیٹے کی رہائی کے انتظار میں انتقال کر گئیں، وہ اس درد کا شکار ہونے والی پہلی نہیں ہے۔ جب تک جبری گمشدگیوں کے لیے استثنیٰ کا یہ کلچر برقرار رہے گا تب تک وہ آخری نہیں ہوگی۔ اب ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔
ایم کیو ایم کے مرکزی کوارڈینیشن کمیٹی کے کنوینر مصطفیٰ عزیز ابادی نے کہا ہے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح سلمان بلوچ، آصف بلوچ اور رشید بلوچ بھی کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے بانی رہنما الطاف حسین بلوچ قوم کے ساتھ ہیں۔
بلوچ وائس فار جسٹس کے آرگنائزر لطیف بلوچ نے کہا ہے کہ جبری گمشدہ افراد کسی کا بھائی، باپ، بیٹا، کسی کا شوہر اور کسی کا منگیتر، ہے، لیکن سیاستدانوں کیلئے یہ لو دو کرنے کا ذریعہ ہے، کسی نے 6 نقاط میں شامل کرکے وزارت، گورنر شپ، کسی نے 8 نقاط میں شامل کرکے سینیٹر شپ لی، کوئی ملین مارچ کی دھمکی دے کر MPA بن گیا، اب مسنگ پرسنز کے نام پر بلیک میلنگ کا یہ سلسلہ بن ہونا چاہیے۔
جبری لاپتہ آصف بلوچ کی ہمشیرہ اور رشید بلوچ کی کزن سائرہ بلوچ نے کہا ہے جب 2018 میں میرے بھائیوں کو ریاستی زندانوں کی نظر کردیا گیا تب میں بہت چھوٹی اور تھی آٹھویں جماعت میں پڑھ رہی تھی تب مجھے اپنی خواہشات اور پڑھائی سب کو چھوڑنی پڑی اور میں نے سب چھوڑ کر اپنی زندگی کا مقصد اپنے بھائیوں کے بازیابی کو بنایا اور اگر اب بھی ریاستی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ میں خاموش ہوجاؤنگی تو یہ انکی بھول ہے، رشید، آصف اور سلمان کو بازیاب کیا جائے۔
جبری لاپتہ سلمان بلوچ کی ہمشیرہ سعدیہ بلوچ نے کہا ہے کہ کہنےکو تو 3 نوجوان ایک ہی خاندان سے غائب ہیں مگراحساسات کی پیمانہ دیکھیں تو ہماری ایک ایک لمحہ زندگی کی خوشیاں غائب ہیں۔ہم تڑپ تڑپ کے زندگی جی رہے ہیں۔ آئیں ہمارے بھائیوں کے منظرعام تک لانے میں ہماری مدد کریں۔
یاد رہے کہ خضدار سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے تین نوجوان جبری لاپتہ ہیں، آصف اور رشید کو 31 اگست 2018 کو پکنک مناتے ہوئے نوشکی کے مشہور پکنک پوائنٹ زنگی ناوڑ سے حراست نہیں لے لاپتہ کیا گیا ہے، انہیں حراست میں لینے کے بعد میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ان کی ٹھکانہ نامعلوم ہے وہ تاحال بازیاب نہیں ہوسکیں۔ اس طرح سلمان بلوچ کو 13 نومبر کو 2022 کو کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا وہ بھی تاحال لاپتہ ہیں۔