فَلسفہ ۔ دینار بلوچ

331

فَلسفہ

تحریر : دینار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

فلسفہ بے چین کرتا ہے ، بے قرار کرتا ہے ، متحیر کرتا ہے ، متحرک کرتا ہے ، محرک بنتا ہے ، مضطرب کرتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسرت بھی بے انتہإ بخشتا ہے ۔ کاٸنات کے راز فاش کرنے کے ساتھ ساتھ خودی سے بھی تو پردہ اُٹھاتا ہے ۔ لیکن یہ فلسفہ ہے کیا چیز ؟ یہ کس بلا کا نام ہے؟ ہر پوچھنے والا خاطرخواہ جواب نہ ملنے پر اسے بہت ہی خشک مضمون سمجھنے لگتا ہے لیکن میرے نزدیک فلسفہ انتہاٸی دلچسپ اور خوشی سے ہمکنار کرنے والا مضمون ہے ۔

فلسفہ یونانی زبان کے لفظ ”فِلوسوفِیا“ سے موخوذ ہے جس کے معنی ”عشقِ دانش“ کے ہیں ۔ فلسفے کا علم بنیادی طور پر وجود و عدم ، علم ، اقدار ، سبب و علل ، وجوہات دماغ اور زبان جیسے معاملات سے متعلق بنیادی اور عام مساٸل کا مطالعہ ہے ۔ فلسفہ علم و آگاہی کا علم ہے ، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض و مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ یعنی فکر و عمل کی جدلیات میں فطرت کی کاریگری کو سمجھنا فلسفیانہ بصیرت کی کاریگری ہے۔

یعنی فلسفہ کسی شے کی حقیقت کو جاننے کا نام ہے۔ فلسفہ کی ایک شاخ جو علم کی حقیقت ، ماہیت ، نوعیت ، حدود ، مسائل اور ذرایع سے بحث کرتی ہے ، اسے علمیات کا نام دیا جاتا ہے۔

علم کے معنی جاننا اور معلومات کے ہیں لیکن فلسفہ میں ایسی ہی معلومات کو علم کا درجہ دیا جائے گا جو مربوط شکل میں ہوں۔ جس طرح اینٹوں کے ڈھیر کو عمارت قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح غیر مربوط معلومات کو علم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

علم کا ایک ذریعہ عقل ہے۔ انسانی ذہن کسی مسئلے پر سوچتا ہے، پہلے اس کی موافقت اور اس کی مخالفت کے حق میں دلیل جمع کرتا ہے پھر ان پر مقدمات بناتا ہے، پھر نتائج اخذ کرتا ہے۔ اگر یہ عمل عقل کے ذریعے انجام دیا جائے تو ایسے علم کو عقلی علم کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فلسفہ تعلیم کیا ہے۔ علمی حوالے سے فلسفہ اور تعلیم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ بقول ایک مفکر کے فلسفہ ایک نظریہ ہے تو تعلیم اس کا عملی پہلو۔ یعنی فلسفہ سوچ اور فکر کا نام ہے تعلیم اس فکر پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔

فلسفہ ایک ایسا علم ہے جس کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے۔ اس کے موجد قدیم زمانے کے افلاطون ، ارسطو ، سقراط اور بقراط جیسے عظیم لوگ تھے ، وہ نہ صرف فلسفی تھے ، بلکہ وہ اپنے زمانے کے مختلف علوم و فنون کے ماہر اور سائنسدان بھی تھے ۔
تاریخ اسلام میں میں علامہ فخرالدین رازی ، امام غزالی ، ابن رشد اور دوسرے سارے بڑے بڑے نام ہیں ، جو فلسفہ کے ماہر تھے ، اور انہوں نے اپنی فلسفیانہ کاوشیں اپنے علمی ورثہ میں چھوڑی ہیں ۔
مغرب میں بھی بہت سے ایسے نام ہیں ، جنہوں نے فلسفہ میں عالمی شہرت حاصل کی تھی ، جیسے برٹرینڈ رسل اور مانوئل کانٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک کتاب کا نام ” فلسفہ اصول و مبادی اور نشو و ارتقاء” ہے ، یہ فلسفہ کے موضوع پر آسان اور عام فہم کتاب ہے ، چنانچہ اس میں ایک جگہ مولانا ابوالکلام آزاد فلسفہ کی حقیقت کے بارے میں لکھتے ہیں ۔

” عام خیال ہے کہ فلسفہ نہایت دقیق اور مشکل مضمون ہے ، جو صرف بعض خاص دماغوں کے لئے موزوں ہے ، یا ایک ایسا غیر مفید اور بے نتیجہ علم ہے ، جس سے صرف انہی لوگوں کو سروکار ہونا چاہئے ، جو کاروباری دنیا کے لائق نہ ہوں ، اور جو ہر وقت اپنے خیالات میں محو اور اپنے توہمات میں غرق رہتے ہوں ، مگر ایسا خیال کرنا سخت غلطی ہے ”

دنیا جو آج رنگ برنگی دکھاٸی دیتی ہے 2600 سال پہلے ایسے نہ تھی ۔ ساٸنس اور عقل کا دود دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔ چاروں اطراف دیومالاٸیں تھیں ، دیوتاٶں کی پوجا تھی اور پُجاریوں کے عیش تھے ۔ دنیا کی تخلیق کا باعث دیوتا تھے اور انہیں ہی خوش کرنے کیلۓ قربانیاں تھیں ۔ یہ شعوری لحاظ سے انسانیت کا تاریک دور تھا ۔

اس تاریک دور میں یونان کی سرزمین پر دھیرے دھیرے فلسفے کی کرنیں نمودار ہورہی تھیں ۔ آیونا کا باشندہ ”طالیس“ یونان پہنچتا ہے اور عقلی بنیاد پر پہلا سوال پوچھتا ہے :
”یہ دنیا کس شے سے بنی ہے …؟
پھر خود ہی جواب دیتا ہے پانی سے …….یہاں پر اہمیت جواب کی نہیں بلکہ سوال کی ہے۔ طالیس درست سوال پوچھ کر ساکت پانی میں پہلا پھتر پھینک چکا تھا ۔ اسی دوران طالیس نے ساٸنس کی بھی ابتدا کی اور سورج گرہن کی درست پیشن گوٸی کی اور اس کے علاوہ اہرامِ مصر کی صحیح پیماٸش بتا کر جیومیٹری کی بھی بنیاد رکھی ۔

اس کے بعد فیثاغورث آیا جس نے ریاضی اور جیومیٹری کے علاوہ فلسفے کو مزید بڑھا دیا اور اسے مزید تقویت دی ۔ پھراناکسی میندرس نے سوال داغا صرف پانی سے زندگی کیسے جنم لے سکتی ہے …..؟ خود ہی جواب دیا ”زندگی گیلی مٹی سے جنم لیتی ہے“ یعنی زندگی کے مآخذ دو عنصر ہے ۔ یعنی ایک پانی دوسرا مٹی ، زندگی جنم لینے کے بعد ارتقاٸی منازل طے کرتی ہے ۔
اناکساغورث نے پوچھا ”اگر زندگی مادہ ہے تو اس میں حرکت کیوں کر پیدا ہوتی ہے ….؟ ان تمام فلسفیوں نے جو جوابات صدیوں پہلے دیۓ تھے یہ سب آج اکیسویں دور کے مڈل کلاس کاطالب علم جانتا ہے ۔ لیکن اہمیت ان جوابات کی نہیں بلکہ اہمیت ان چند سوالات کی ہے جو اُس دور میں پوچھے گیۓ تھے ۔ صحیح سوال ہی دراصل فلسفے کی روح ہے یہ صحیح سوالات اُٹھانے کے بعد فلسفے کی صورت آہستہ آہستہ آشکار ہورہی تھی اور اب ضرورت ایسے دانشوروں کی تھی جو ایک یا دو نہیں بلکہ بےشمار سوالات اُٹھاۓ ۔روح عصر کو ایک نیک دل نے لبیک کہا اور سوالات کا لامتناہی سلسلہ شروح کیا اور وہ نیک دل شخص یونان کے شہر ایتھنز کا رہنے والا دنیا کے عظیم دانشور متوسط طبقے کے گھر میں پیدا ہونے والا ”سقراط“ ہی تھا۔

سقراط بچپن ہی ”سوچ بچار“ کا عادی تھا ۔ کبھی کبھار تو اسے سوچ بچار کے ایسے دورے پڑتے کہ وہ پہروں بیٹھا کسی بات پہ سوچتا رہتا ۔ جب وہ کسی مسٸلے پر غور و فکر کر رہا ہوتا تو اس کی محویت کا یہ عالم ہوتا کہ اسے آس پاس کی کسی بات کا بھی ہوش نہ ہوتا۔ اس کی بقیہ زندگی ”داناٸی “ خدمت کرتے گزرے ۔ سقراط کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ ہر روز شہر کے کسی چوک پہ بیٹھ جاتا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے اردگرد ایتھینز کے نوجوانوں کے جھتے یوں اُمڈ آتے گویا شمع کے گرد پروانے ۔ سقراط سارا دن کسی نہ کسی مسٸلے پر گفتگو کرتا رہتا اور ان نوجوانوں سوالات پوچھتا رہتا ان نوجوانوں میں افلاطون ، ارسطو فینز ، زینوفان اور اگیتھون سرِ فہرست تھے۔
عام طور پر اس گفتگو کے موضوعات جمہوریت ، ریاست ، سیاست سچاٸی ، خوبصورتی عدل اور عقل وغیرہ ہوتے۔ ان تمام موضوعات پر پہلے کٸی فلسفیوں نے اپنے اپنے نظریات قاٸم کر رکھے تھے۔ اور وہ سقراط کے زمانے میں ”اُمرا ٕ “ کے بچوں کو معاوضے کے عوض فلسفہ پڑھاتے تھے ۔ سقراط نے ان کے سارے نظریات کو رد کیا اور اپنے طریقہ کار ”مکالمہ“ کے ذریعے نیۓ اوصاف دینے کی کوشش کی اور یوں سقراط آہستہ آہستہ دانشور کی حیثیت سے مشہور ہونے لگا۔

سقراط کسی بھی آدمی سے کسی بھی موضوع پر گفتگو شروع کردیتا تھا تو اُس گفتگو سے نتاٸج اخذ کرنے کی کوشش کرتا مثلاً سقراط اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہوۓ کسی شخص سے پوچھتا آخر ”ہمت“ کیا ہے …؟ وہ شخص ہمت کی تعریف بیان کرتا ہو تو سقراط اس پر گہرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوۓ ”ہمت “ کے بابت مزید سوال پوچھتا ۔ وہ شخص زیادہ سے زیادہ بولتا رہتا اور سقراط زیادہ سے زیادہ سنتا رہتا اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا آخر کار وہ شخص اپنی ہی بیان کردہ تعریف سے مُکر جاتا اور کوٸی نٸی تعریف بیان کرنے لگتا سقراط پھر اسی طرح سوالات پوچھنا شروع کردیتا اور آخرکار کسی نہ کسی تعریف پر دونوں متفق ہوجاتے مگر اکثر ایسا نہ ہوتا اور بحث کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوجاتی۔

سقراط کے اس طریقہ کار کو اس کے شاگرد بھی پسند کرنے لگے جب اُس کے شاگرد کسی فلسفی کے پاس جاکر سوال جواب کرتے تو اس فلسفی کی فہم و فراست کا پول کھل جاتا جس کے نتیجے میں یہ دانشور صاحبان خود سے بہت کم عمر نوجوانوں کا سامنا کرتے ہوۓ اپنی توہین محسوس کرتے۔ سچاٸی اور داناٸی کا متلاشی سقراط اعلٰی اخلاقی اقدار کی ترجمانی کو اپنا نصب العین سمجھتا تھا لیکن اعلٰی اخلاقی اقدار کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے تک وہ علم یا فہم پر زیادہ اسرار کرتا ۔

سقراط کے دور میں یونان میں شہری ریاستیں تھیں اور ان میں جمہوری نظامِ حکومت راٸج تھا لیکن ہر دور کی طرح یونان میں بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اکثریت بد عنوان اور جاہل تھی سقراط ہمیشہ اس بات پر زور دیتا کہ مقتدر قوتوں کو ریاست کا مکمل علم ہونا چاہیۓ۔
اگر مجھے اپنا جوتا مرمت کرانا ہو تو کس سے کراٶنگا ، سقراط اپنے کسی شاگرد سے پوچھتا ”جفت ساز “ سے جواب ملتا ۔ اچھا اگر کپڑا سلوانا مقصود ہوتو بھی جفت ساز کے پاس جانا ہوگا ۔ نہیں ۔۔۔سقراط ! اس کے لیۓ تو ”درزی “ کے پاس جانا پڑے گا ۔ اسی طرح وہ معمار ، بڑھٸی اور لوہار کے متعلق پوچھتا اور آخر کار کہتا ۔۔۔اگر جوتا بنانے کے لیۓ موچی ، کپڑا سینے کیلٸے درزی ، کلہاڑی بنانے کے لیۓ لوہار کا کام سیکھنا ضروری ہے تو پھر ریاست کی کشتی چلانے کے لیۓ بھی بڑے ماہر کاریگروں کی ضرورت ہے ۔

سچ کے متلاشی فلسفی کی مقبولیت اور اس کا فلسفہ حکمران طبقے کو پسند نہ آیا ۔ سچ کو دبانے اور اپنی بد عنوانیوں پر پردہ ڈالنے حاکمینِ وقت سازشیں تیار کرنے لگیں ۔ آخر کار سقراط یا دوسرے لفظوں میں ”سچاٸی “ کو ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سلانے کے لیۓ انہوں نے منصوبہ تیار کرلیا۔

فلسفہ کو ہم ”ام العلوم “ کہہ سکتے ہیں موجودہ دور کے تقریبًا تمام علوم منبع و ماخذ ہی تو فلسفہ ہے ۔ ریاضی ، علم طبیعات ، علم کیمیا ٕ ، علم منطق ، علم نفسیات ، معاشرتی علوم سب کے سب ہی اسی فلسفے کے عطایاں ہیں ۔

علمِ فلسفہ کے توسط سے دوسرے علوم کے موضوعات کو معین کیا جاتا ہے ۔ علم فلسفہ میں ہستی شناسی ، معرفت شناسی جیسے موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں اور فلسفے کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذاتِ خود اپنی فطرت میں کیا ہے ۔ فلسفہ علم و آگاہی کا علم ہے ۔ گذشتہ زمانے میں فلسفہ کے علم سے مختصر تعداد میں کچھ خاص قسم کے لوگ ہی بہر مند ہونے ہوتے تھے جس کی وجہ سے یہ علم عام عوام کے درمیان شہرت کا حامل نہیں تھا یہاں تک کہ ابنِ سینا نے اپنے بیانات میں کہا کہ فلسفہ ہر کسی کو مت سکھایا جاۓ فلسفہ صرف ان لوگوں کو سکھایا جاۓ جو فلسفہ کو درک کرنے کی لیاقت اور تواناٸی رکھتے ہیں ۔

حالیہ دور میں بچوں کیلۓ فلسفہ کی تعلیم بہت اہم ہے ۔ فلسفی تعلیم دینے کا معنی یہ ہے کہ بچوں خلاقیت اور عقلانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاۓ بلکہ یو کہے کہ ”سوچ بچار “ کی تعلیم دی جاۓ کہ کس طرح استدلال کی جاۓ ، اپنے احساسات پر کیسے قابوں پایا جاۓ ۔

ایک محکوم ، مظلوم ، لاچار اور غلام قوم کیلٸے علمِ فلسفہ بہت ضروری ہے تاکہ وہ ان سب وجوہات اور اسبابِ وجوہات کو جان سکیں جن کے بنا پر انہیں محکوم اور غلام رکھا گیا ہے ۔ آج جب ”بلوچ قوم “ کا نام آتا ہے تو دنیا کے سامنے ایک ایسی قوم کی تصویر بن کر اُبھرتی ہے جس کی پہچان محکوم ، مظلوم ، لاچار ، غربت ، جہالت ، مایوسی اور شکست خوردگی اور زلت و خواری ہے ۔ آج ہر بلوچ کو سقراط بننا ہوگا ، سوال کرنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔