تائیوان کے نئے صدر لائی چنگ تے کے اپنے عہدے کے حلف لینے کے بعد چین نے جمعرات کی صبح تائیوان کے ارد گرد فوجی مشقیں شروع کی ہیں، جو جمعے کے روز تک جاری رہیں گی۔
چینی فوج کی ایسٹرن تھیئٹر کمانڈ نے کہا کہ آرمی، بحریہ، فضائیہ اور راکٹ فورسز نے آبنائے تائیوان اور کنمین، ماتسو، ووکیو اور ڈونگین جزائر میں فوجی مشقیں شروع کردی ہیں۔
چین کی سرکاری میڈیا ژنہوا کے مطابق یہ فوجی مشقیں مشترکہ سمندری، فضائی جنگی تیاریوں، اچوک حملوں اور حقیقی جنگی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے مربوط کارروائیوں پر مرکوز ہیں۔
چینی فوج کے ترجمان لی ژی کے مطابق یہ مشقیں “علیحدگی پسندانہ کارروائیوں” کے لیے “سخت سزا” ہیں، جو لائی چنگ تے کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے تین دن بعد شروع کی گئی ہیں۔ انہوں نے ان مشقوں کو “بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور اشتعال انگیزی کے خلاف سخت انتباہ” بھی قرار دیا۔
ماضی میں بیجنگ تائیوان کے صدر لائی کو ایک “خطرناک علیحدگی پسند” کہتا رہا ہے جو اس کے بقول خطے میں “جنگ اور زوال” لائے گا۔
تائیوان کی مسلح افواج ‘ تیار’ ہے
تائیوان نے اپنی خودمختاری کے دفاع کے عزم پر زور دیتے ہوئے چین کی فوجی مشقوں کی مذمت کی۔
تائیوان کی وزارت برائے قومی دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ “وہ اس طرح کی غیر معقول اشتعال انگیزیوں اور اقدامات کی شدید مذمت کرتی ہے، جو علاقائی امن اور استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔”
تائی پے نے یہ بھی کہا کہ اس نے بیجنگ کے اقدام کے جواب میں بحری، فضائی اور زمینی افواج کو متحرک کردیا ہے۔
تائیوان کی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ،”مسلح افواج کے تمام افسران اور سپاہی تیار ہیں۔” انہوں نے مزید کہا،”ہم جنگ کی تیاری، جنگ کا جواب دینے اور جنگ سے گریز نہ کرنے کے مضبوط ارادے پر قائم ہیں۔”
بیجنگ۔ تائی پے کشیدہ تعلقات
حالیہ برسوں میں بیجنگ کے ساتھ تائی پے کے تعلقات خراب ہوئے ہیں کیونکہ چین نے جمہوری جزیرے پر دباو بڑھادیا ہے، جس سے ممکنہ حملے کے بارے میں وقتاً فوقتاً خدشات بڑھ رہے ہیں۔
چین جمہوریہ تائیوان کو اپنی سرزمین قرار دیتا ہے اور اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ جزیرے کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے وہ طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
بیجنگ نے قبل ازیں صدر لائی کی جانب سے بات چیت کی کوششوں کو مسترد کردیا تھا اور جنوری میں ان کی انتخابی جیت کے بعد سے تائیوان کے ارد گرد فوجی سرگرمیاں بڑھادی تھیں۔
صدر کے عہدے کا حلف لینے کے بعد پیر کو اپنے خطاب میں لائی نے جزیرے کی جمہوریت کا دفاع کرنے کا عزم ظاہر کیا اور چین سے مطالبہ کیا کہ وہ خو دمختار جزیرے کو دھمکیاں دینا بند کرے۔
انہوں نے بیجنگ پر زور دیا کہ وہ” تائیوان اور آبنائے تائیوان کے ساتھ ساتھ وسیع تر خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری میں حصہ دار بنے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ دنیا جنگ کے خوف سے پاک ہو۔”