امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے 33 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ جس کے بعد غزہ جنگ کے خلاف امریکی جامعات میں احتجاج کے دوران گرفتاریوں کی تعداد 2600 سے تجاوز کر گئی ہے۔
امریکی دارالحکومت کی میٹروپولیٹن پولیس نے دعویٰ کیا کہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے گرفتار کیے گئے 33 افراد غیر قانونی طور پر کیمپس میں داخل ہوئے اور انہوں نے پولیس افسر پر حملہ کیا۔
پولیس نے یونیورسٹی کی حدود میں خیمے لگا کر بیٹھنے والے طلبہ کو احتجاجی مقام سے ہٹانے کے لیے ان پر مرچی کا اسپرے بھی کیا جب کہ پولیس کا مؤقف ہے کہ اس نے مظاہرین کو منتشر کیا ہے کیوں کہ احتجاج کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔
یونیورسٹی کے عہدیداروں نے طلبہ کو متنبہ کیا ہے کہ انہیں جامعہ کی حدود میں احتجاج کرنے پر معطل کیا جاسکتا ہے۔
ایک بیان میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی نے کہا کہ “یونیورسٹی طلبہ کے آزادی اظہار کے حق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ البتہ احتجاجی کیمپ غیر قانونی سرگرمی میں تبدیل ہو گیا تھا جس میں شرکاء نے یونیورسٹی کی متعدد پالیسیوں اور شہر کے ضوابط کی براہِ راست خلاف ورزی کی تھی۔”
درجنوں مظاہرین نے منگل کی شب جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی صدر ایلن گرانبرگ کے گھر کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق امریکہ بھر میں مختلف جامعات میں فلسطینیوں کے حامی مظاہروں میں اب تک 2,600 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
طلبہ کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اسرائیل یا اسرائیل سے تعلقات رکھنے والی کمپنیوں سے سرمایہ کاری ختم کریں۔
فلسطینیوں کے حامی طلبہ سترہ اپریل سے اب تک امریکہ کے کم از کم 50 کیمپسز میں جمع ہوئے ہیں جو یہ غزہ جنگ کے خلاف اور رفح میں اسرائیل کے کسی بھی متوقع آپریشن کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے والدین نے احتجاج سے نمٹنے کے طریقے پر تنقید کی ہے جب کہ کانگریس کی ایک کمیٹی نے بدھ کے روز یونیورسٹی میں لگائے گئے کیمپ میں ہونے والی سماعت کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔
بدھ کی سہ پہر یونیورسٹی کے اساتذہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک طالب علم کی والدہ ہالا عامر نے کہا کہ یونیورسٹی واضح طور پر طلبہ کی قدر نہیں کرتی اور اس نے ہمارے بچوں کی حفاظت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی نے رائٹ گیئر یعنی فسادات سے نمٹنے والے سازو سامان سے لیس “پولیس افسران کو حملہ کرنے اور طلبہ کی آنکھوں میں مرچ کے اسپرے چھڑک کر ان کی حفاظت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔”
پریس کانفرنس کے شرکا نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی صدر گرانبرگ کے استعفے کا مطالبہ کیا اور الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی کی صدر نے طلبہ مظاہرین سے ملنے اور بات چیت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پریس کانفرنس کے بعد وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ہالا عامر نے یونیورسٹی صدر کے حوالے سے کہا کہ آپ تشدد کو بھڑکاتے اور طلبہ کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ یہ صرف مزید تشدد کا باعث بنے گا۔ آپ کو اپنے طلبہ سے بات کرنا ہوگی۔
امریکہ کی مختلف جامعات میں احتجاج غزہ میں جاری جنگ کے ساتویں مہینے میں ہو رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
فریقین کے درمیان غزہ جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی مدد سے مذاکراتی عمل جاری ہے۔ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ اگر یرغمالوں کی رہائی کے لیے مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ رفح میں اپنی کارروائی کو “گہرا” کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ رفح غزہ کا جنوبی شہر ہے جو مصر کی سرحد سے متصل ہے۔ جنگ کے باعث 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی رفح میں ہی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ فلسطینی سرزمین میں انسانی امداد پہنچانے کی ایک راہداری بھی ہے۔
اسرائیل نے منگل کے روز غزہ کی حدود میں رفح کراسنگ قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔