جنوبی افریقہ نے جمعرات کو اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے غزہ میں “قتل عام” کو تیز کر دیا ہے اور اس نے ججوں پر زور دیا ہے کہ وہ رفح پر اسرائیلی حملے کو روکنے کا حکم دیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے پریٹوریا کی نمائندگی کرنے والے وکلاء کی طرف سے اسرائیل کے خلاف دائر کیے گئے الزامات کی سماعت کی، جن میں اجتماعی قبریں، اذیت رسانی، اور انسانی ہمدردی کی امداد کو دانستہ طور پر روکنے کے الزامات شامل تھے۔
اسرائیل کل جمعے کو اپنا استدلال پیش کرے گا۔ وہ اس سے قبل بین الاقوامی قانون کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی پر زور دے چکا ہے اور اس نے جنوبی افریقہ کے کیس کو “مکمل طور پر بے بنیاد” اور اخلاقی طور پر” ناقابل قبول ” قرار دیا ہے۔
پرٹیوریا کے اعلیٰ وکیل ووسیموزی میڈونسیلا نے کہا، ’’جب ہم آخری بار اس عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے تو جنوبی افریقہ کو فلسطین اور اس کے لوگوں کے تحفظ کے لیے قتل عام کے اس عمل کو روکے جانے کی امید کی تھی۔”
میڈونسیلا نے مزید کہا کہ اس کے بجائے، اسرائیل نے اسے تیزی سے جاری رکھا ہے اور وہ اس وقت “ایک نئے اور خوفناک مرحلے پر پہنچ چکا ہے ۔”
جنوبی افریقہ نے دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف آئی سی جے کے پیس پیلس میں دو روزہ سماعتوں کے آغاز پر ججوں سے درخواست کی کہ وہ غزہ بھر میں جنگ بندی کا حکم دے ۔
جنوری میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے ایک فیصلے میں جو دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں رہا، اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ غزہ میں قتل عام کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنی حتی المقدور کوشش کرے اور وہاں انسانی ہمدردی کی انسانی امداد کی ترسیل کو ممکن بنائے۔
لیکن عدالت نے جنگ بندی کا حکم نہیں دیا تھا اور اب جنوبی افریقہ کی دلیل یہ ہے کہ زمینی صورت حال خاص طور پر گنجان آباد شہر رفح میں آپریشن عالمی عدالت انصاف کی جانب سے تازہ اقدام کا متقاضی ہے۔
جنوبی افریقہ کے ایک وکیل وان لو نے دلیل پیش کی کہ رفح مہم “غزہ اور اس کے فلسطینی عوام کی تباہی کا آخری مرحلہ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی افریقہ نے یہ مقدمہ رفح کے لیے دائر کیا ہے لیکن تمام فلسطینیوں کو ایک قوم، نسل اور نسلی گروپ کے طور پر تحفظ کی ضرورت ہے جس کا عدالت ہی حکم دے سکتی ہے۔
عدالت تین ہنگامی احکامات جاری کرے : جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ چاہتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے 1948 کے کنونشن کی خلاف ورزی کے زیادہ بڑے الزام پر فیصلہ دیتے ہوئے تین ہنگامی احکامات جاری کرے — عدالتی زبان کے مطابق “عارضی اقدامات۔”
سب سے پہلے، وہ چاہتا ہے کہ عدالت اسرائیل کو رفح میں “فوری طور پر اپنی فوجی کارروائی کی فوری طور پر واپسی اور خاتمے کا حکم دے۔
دوسرا، اسرائیل کو انسانی ہمدردی سے متعلق امدادی کارکنوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں اور تفتیش کاروں کو غزہ تک “بلا روک ٹوک رسائی” کی اجازت کے لیے “تمام موثر اقدامات” کرنے چاہئیں۔
اور تیسرا حکم جس کی پریٹوریا نے درخواست کی وہ یہ کہ عدالت اس بات کو یقینی بنائے کہ اس نے اسرائیل کو جو احکامات دیے تھے اسرائیل ان پر عمل درآمد کے اقدامات کی رپورٹ اسے پیش کرے۔
رفح آپریشن ‘جاری رہے گا۔ نیتن یاہو
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایسے امریکی انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے، کہ رفح میں پناہ لینے والے دس لاکھ سے زیادہ شہری کراس فائرنگ کی زد میں آ سکتے ہیں، اس شہر پر حملے کا حکم دیا۔
نیتن یاہو نے بدھ کو جواز پیش کیا کہ “جو ہمیں کرنا ہے، ہم وہ کرینگے” اور انہوں نے زور دے کر کہا کہ رفح سے بڑے پیمانے پر لوگوں کے انخلاء نے انسانی ہمدردی کے اس خوفناک سانحے کو ٹال دیا ہے، جس کا بہت زیادہ ڈر تھا۔
عدالتی سماعت کے آغاز سے چند منٹ قبل، اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ رفح میں آپریشن جاری رہے گا اور اضافی فورسز علاقے میں داخل ہوں گی۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابندی
ریاستوں کے درمیان تنازعات سے متعلق آئی سی جے کے احکامات کی قانونی طور پر پابندی لازمی ہے لیکن اس کے پاس ان پر عمل در آمد کرانے کے لیے وسائل کا فقدان ہے۔
وہ روس کو یوکرین پر حملہ روکنے کا حکم دے چکا ہے، جس کا کوئی نتیجہ نہیں ہوا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے، یو این آر ڈبلیو اے (UNRWA ) نے بدھ کو کہا کہ رفح میں فوجی کارروائیوں میں شدت آنے کے بعد سے 60 ہزار لوگ لڑائیوں اور شدید اسرائیلی بمباری کے دوران وہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
مستقل جنگ بندی واحد حل:پریٹوریا
جنوبی افریقہ نے عدالت میں جمع کرائے گئے ایک تحریری بیان میں کہا، ” اگر غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد کے ایک بنیادی مرکز کے طور پر رفح اپنی کارروائیوں کی انجام دہی میں ناکام ہوتا ہے تو غزہ میں بھی ایسا ہی ہو گا ۔”
وکیل عدیلہ حسیم نے جذبات سے رندھی آواز میں کہا کہ “انسانی امداد کی ترسیل میں خلل اندازی سے نوبت بھوک سے قحط تک پہنچے گی اور اسے صرف اور صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کا دانستہ طور پر خاتمہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
پریٹوریا نے زور دے کر کہا کہ عدالت کے موجودہ احکامات پر عمل درآمد کا واحد راستہ “غزہ میں مستقل جنگ بندی” ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی 7 اکتوبر کو حماس کے ایک غیر معمولی حملے کے جواب میں شروع کی گئی تھی جس کے نتیجے میں 1,170 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
عسکریت پسندوں نے تقریباً 250 لوگوں کو یرغمال بنایا تھا، جن میں سے 128 اسرائیل کے اندازے کے مطابق غزہ میں موجود ہیں، اور فوجیوں کے مطابق ان میں سے 36 ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کی حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی فوج نے غزہ پر بے دریغ بمباری اور ایک زمینی کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 35,233 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔