شہید ملا ابراہم کا قائدانہ کردار ۔ داد جان بلوچ

301

شہید ملا ابراہم کا قائدانہ کردار

تحریر: داد جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

کیوبا میں کامیابی کے بعد جب اُسے وزارت خزانہ کی زمہ داری سونپی گئی، پرکشش کرسی پر بیٹھ کر اُس نے کیوبن سگار سلگائی اور کَش لگاتے ہوئے مظلوموں کی یاد میں ڈوب گیا۔ اُس سرپھرے نے یہ کہہ کر وزارت کو خیر آباد کہا کہ میرے زندگی کا مقصد کرسی نہیں بلکہ جدوجہد ہے اور وہ دنیا کو سامراجیت کے شکنجے سے چھٹکارا دلانے کیلئے کانگو پہنچ گیا اور وہاں تحریک کی باگ ڈور کچھ وقت سنبھالنے کے بعد جنوبی امریکی ملک بولیویا میں وارد ہوئے اور گوریلوں کی قیادت سنبھالی۔

بولیویا میں امریکی سی آئی اے کی مدد سے بولیوین فوج کے گھیرے میں آگئے، اس کی بندوق فائرنگ کے دوران گولی لگنے سے ناکارہ ہوگیا اور سی آئی اے نے اسے زندہ گرفتار کرلیا۔

سامراج اسے نشانہ عبرت بنانا چاہتے تھے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ ایک لافانی کردار ہے اور تاریخ میں پہلے ہی امر ہوچکا ہے، اب اسے شاید زندگی سے نجات دے سکتے ہیں لیکن دنیا کے محکوموں کے دلوں سے نہیں، سامراجی اسکواڈ نے اس کے سینے میں گولیاں پیوست کیں، وہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوا کہ تم لوگ ایک شخص کو قتل کرسکتے ہو لیکن نظریہ کو نہیں۔

میں ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرنا چاہ رہاہوں جس نے چی گویرا کی طرح استعماریت سے نجات کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا اور بلوچ قومی جنگ کا حصہ بن کر بلوچ قومی تاریخ کے پنوں میں امر ہوئے۔

وہ ایک کامل سرمچار، سیاسی ورکر، استاد، لیکھک اور با کردار انسان تھا۔ ہمارے سماج میں غلامی کی خستہ اور ناراحت کیفیت کے باوجود ایسے کردار پیدا ہورہے ہیں جنہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ ہماری سرزمین اور قوم کی یہ حالت سامراجی طاقتوں کے پالیسیوں کی وجہ سے ہے اور دنیا کے سامراجیت کے علمبردار امریکہ کی سرپرستی اور آشیرباد اسے بھرپور حاصل ہے۔

وہ ایک خوش مزاج اور پہلواں نوجوان تھا اور ہم پہلی بار ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ملاقات تو پہلا تھا لیکن جدوجہد میں گزرے لمحات نے ہمیں ایک دوسرے سے مانوس کردیا تھا۔

سوال کرنے کی طرز پر انہوں نے بحث کی ابتدا کی گویا ہوئے کہ
آپ مجھے بتائیں کہ بلوچستان میں جاری جنگ صرف انسانی حقوق کا ہے؟ یا قومی تشخص اور بقا کا مسلہ ہے؟

انہوں نے خودکلامی کی صورت میں کہا کہ اگر آپ کو برا نہ لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے خود کو سوشل میڈیا تک محدود کردیا ہے اور قومی پارٹیاں بیرون ممالک اپنے احتجاجوں میں بلوچ قومی مسئلے کو انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں تک محدود کردیا ہے۔

سیاسی ورکر کی حیثیت سے ہم اور آپ بخوبی واقف ہیں کہ اگر مقامی لوگوں کی آزادی چھین لی جائے اور بزور طاقت انہیں قومی غلامی میں دکھیل دیا جائے تو انہیں اقوام عالم کی تنظیم اقوام متحدہ کے برائے نام چارٹر کے مطابق مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے لیکن ہماری قومی سیاسی پارٹیاں بات کرنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ریاست ان کیلئے نرم گوشہ رکھے، اگر ایسا ہے تو یہ لوگ واپس بلوچستان میں آکر کیوں سیاست نہیں کرتے؟

ملا ابراہیم نے ایک گلاس پانی حلق سے اتارتے ہوئے مزید کہا کہ آج آپ کو مجھے سننا ہوگا، ہمارے لوگ آج بھی اس غلط فہمی میں جی رہے ہیں کہ آسمان سے ان کیلئے کوئی فرشتہ آئے گا، کوئی دلیل دیتا ہے کہ پاکستان قرضوں کی وجہ سے ٹوٹ جائے گا۔

کیا یہ تمام سیاسی پنڈت واقعی حقیقت سے نا واقف ہیں؟ کیا پاکستان کو انہیں قرضہ دینے والے اداروں اور ملکوں ( مغربی سامراجیت کے علمبرداروں ) نے خود نہیں بنایا ہے؟ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی انہی طاقتوں نے حاصل کرنے نہیں دی؟ کیا انسانی حقوق کے چیمپئن امریکہ نے پاکستان کو وہ بیلسٹک میزائل اور ہتھیار فراہم نہیں کئے تھے جن سے نواب بگٹی کو شہید کیا گیا؟ ہم اب بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی مسیحا ملک آئے گا اور کہے گا کہ میں بلوچوں کو آزاد کروں گا، انہوں نے ایک بار پھر گلاس کا بچا ہوا پانی حلق میں انڈیلتے ہوئے کہا برادر آپ بور ہورہے ہیں لیکن آج آپ کو میری باتیں برداشت کرنے ہونگے۔

آپ کے علم ہے کہ لینن نے کہاتھا کہ آپ دوسروں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنی تںظیمی قوت ادارہ جاتی پالیسیوں پر مرکوز کر کے مضبوط ادارے بناسکتے ہیں۔

کیا ہم ایک پروفیشنل آرمی کو اس طرح شکست دے سکتے ہیں؟ ہمارا معاشی نظام واقعی اتنا مضبوط ہے کہ ہم مسلسل اپنی سپلائی چین کو بحال رکھ سکیں؟

میں جب اپنے قائدین کے ٹوئٹ دیکھتا ہوں کہ دنیا ہماری مدد کرے، ایسے وقت میں مجھے واقعی لگتاہے کہ ہم بھی پاکستانی ریاست کی طرح، دوسروں کی مدد پر اپنی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ایسے بیانوں سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ ہمیں پریکٹیکل ہونے کی ضرورت ہے، جنگ زدہ بلوچستان میں پاکستان سے آئے فوج کے میجرجنرل اور کرنل اربوں کھربوں کمارہے ہیں لیکن ہم اب تک بلوچ قومی تحریک میں مضبوط معاشی منصوبے بنانے کے بجائے دنیا کے دوسرے ممالک سے مدد کے لئے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔

شہید ملا ابراہیم نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ بہت ہوگیا۔ میں نے آپ کا بہت وقت لے لیا ہے ۔ ویسے سیاسی دوستوں کیلئے یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے کہ کوئی انہیں سننے کے بجائے انہیں اتنا سنائے کہ انہیں موقع ہی نہ ملے، خیر زندگی رہی بات ہوتی رہیگی۔

مجھے ملا ابراہیم، عصا سے پہلی اور آخری ملاقات کی باتیں اُس دن پھر ذہن نشین ہوئیں جب میں نے 5 مئی کو سوشل میڈیا پہ خبر سنا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔

ملا ابراہیم واقعی دیدہ دل اور جہاندیدہ کامریڈ تھا۔ جس نے آخری وقت تک سرزمین کے ساتھ وفا کیا اور قومی آجوئی کی جدوجہد کرتے ہوئے امر ہوئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔