شہید عبدالجبار و کامریڈ مقصود کی یادیں ۔ شاہ آپ بلوچ

302

شہید عبدالجبار و کامریڈ مقصود کی یادیں

تحریر: شاہ آپ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اس سفر میں بہت سے دوست ہم سے بچھڑ چکے ہیں ہم کو ویران کر کے چلے گئے، لیکن اپنی یادیں چھوڑ کرگئے، انہوں نے جنگ کو ہمارے کندھوں کے حوالے کیا۔

شہید جبار گُرو اور شہید کامریڈ ماس کے ساتھ میری پہلی ملاقات 2013 میں مئی میں ہوا۔ اس وقت جبار گُرو کچھ ساتھیوں کے ساتھ کیمپ میں اپنا ٹریننگ مکمل کرنے آیا تھا اس سے پہلے جبار گُرو شہری گوریلہ مشنوں میں حصہ لے چکا تھا۔ یہاں شہید سنگت سےجان پہچان ہوا، مجھے یاد ہے ان کے پاس کچھ تسبیح تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ مذاقاً کہا کہ میں ساحر ہوں، لوگوں کے ہاتھوں کو پڑھ کر زندگی بتا سکتا ہوں کہ آگے کیا ہوگا۔ میں نے بھی مذاق میں کہا کہ بتا دو میرے زندگی میں آگے کیا گذرے گا، تو انہوں نے سندھی فقیروں کی طرح کچھ کہا۔
یہاں سے میرے اور جبار گُرو کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ وہ ایک مہینے تک ہمارے ساتھ تھا، بعد میں ایک سفر پر نکل پڑا، سفر کے بعد میں جبار گُرو کو دو سال تک نہیں ملا، 2015 مارچ میں ہمارے ایک ذمہ دار دوست نے کہا ساتھی تنظیم کے کچھ دوست ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ان میں ایک کا نام شاھو ہے، شاھو جبار گُرو کا کوڈ نام تھا، وہ ساتھی تنظیم میں تھا، آپ ان کو مل چکے ہیں۔ شہید کامریڈ نے مجھے کہا یہ وہی سنگت ہیں بنزک میں آپ ان کے ساتھ تھے۔ میں بھی سمجھ گیا جی میں ان کو جانتا ہوں۔

بعد میں پتا چلا جبار گُرو اور شہید مختار عرف حاجی کچھ ساتھیوں کے ساتھ قلات شور پارود کے محاذ پر جارہے ہیں۔ اس سفر کے دوران خاران کے مقام پر ساتھیوں کا پولیس فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوا جہاں مختار عرف حاجی شہید ہوا جبکہ باقی سنگت قلات شور کیمپ پہنچ گئے۔

پانچ مہینوں کے بعد جبار و دیگر ساتھی واپس مکران کے محاذ پر آتے ہیں۔ یہ ساتھی 3 اگست کو ہمارے ساتھیوں کے کیمپ پہنچے تھے جبکہ میں اس دوران ایک سفر پر تھا تاہم میں دوسرے دن کیمپ پہنچا جہاں جبار گُرو اور ساتھوں سے ملکر بہت خوش ہوا کہ دو سال بعد ہم مل رہے ہیں۔ جبار گُرو ایک مختصر مدت ہمارے ساتھ رہا۔
وہ ایک نڈر جنگجو تھا، بہت سے جنگوں میں حصہ لے چکا تھا وہ مکران کے بیشتر محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ کُلبر، تگران، زعمران، بلیدہ، تربت، گوادر، مزن بند اور تمپ کے محاذوں پر دشمن پر کئی حملوں میں شامل رہ چکا تھا۔

جبار گُرو ہمیشہ اپنے پاس تسبیح رکھتا تھا وہ کہتا کہ یہ میرے والد کا دیا ہوا ہے۔ ہم زعمران میں ایک سفر میں گئے ہماری ملاقات شہید فدائی منصب عرف فرید سے ہوئی۔ اس سے پہلے فرید سے ہماری ملاقات 2013 میں ہوا تھا پانچ سال کے بعد ہم فرید کو دیکھ رہے تھے یعنی 2018 میں، فرید نے پوچھا کیا آپ مجھے پہچانتے ہو؟ شہید جبار گُرو نے کہا جی ہاں، شناخت کے لیے ہاتھ ملانا کافی ہے۔ شہید فرید کے ہاتھ میں چھ انگلیاں تھیں جبکہ شہید کا کوڈ نام یہاں چینج ہوچکا تھا ان کو براھیم کے نام سے پکارتے تھے۔

جبار گُرو سے میری آخری ملاقات 21 نومبر 2022 کو ہوا جب وہ ایک سفر پر گیا اور میں بھی ایک سفر پر تھا بعد میں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکے لیکن فون پر ہر وقت جبار گُرو سے بات ہوتی رہی۔

شہید کامریڈ مقصود عرف کامریڈ مہروان ماس سے میری پہلی ملاقات 2012 جون میں ایک کیمپ میں ہوئی اس وقت شہید ماس کا کوڈ نام مھروان نہیں عمر تھا، ماس خود شدید بیمار تھا لیکن وہ ہر وقت دوسرے ساتھوں کی خدمت میں مصروف رہتا، کوئی سنگت اگر بیمار ہوتا وہ دن رات ان کے قریب رہتا تھا ان کے خدمت کی پوری ذمہ داری لیتا جب تک سنگت صحت یاب نہیں ہوتا۔

2012 کے بعد میں شہید ماس سے دو سال چھ مہینوں تک نہیں مل سکا، 2014 دسمبر کی سردی میں ہم ایک سفر پر گئے اور اس دوران شہید ماس سے ملاقات ہوئی اور واپسی پر تنظیمی فیصلے کے تحت سنگت ماس کو اپنے ساتھ لے آئے۔ شہید کامریڈ ماس اور ہم 2014 سے لیکر 2021 تک مختلف علاقوں میں مختلف سفروں پر ایک ساتھ رہے۔

شہید ماس ایک مھروان شخص تھا۔ مجھے یاد ہے ایک گشت کے دوران میں شدید بیمار ہوا۔ شہید کامریڈ ماس نے ایک ماس (ماں) کی طرح میرا خیال رکھا، دن اور رات میرے ساتھ رہا۔

وہ کلبر، زعمران، تگران، تربت، تمپ، بالگتر اور بہت سے محاذوں پر اپنے خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ شہید ماس سے میری آخری ملاقات 2021 نومبر کے مہینے میں ہوا وہ بھی کسی سفر پر گیا بعد میں شہید ماس کو میں نہیں مل سکا۔

شہید جبار گرو ار شہید مقصود ماس، دونوں ساتھی تنیظٰم میں اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔ ساتھیوں کی بہت سی یادیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ان گذرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کبھی کبھار آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں؛ جنگ میں ہمارے کتنے ساتھی جسمانی حوالے سے ہم سے بچھڑ گئے لیکن حوصلہ ہر وقت مظبوط رہتا ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہے جنگ میں یہ کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں اور ہر تکلیف، ہر درد کا حل وطن کی آزادی ہے۔ ہمیں پتہ ہے ہمارا خون، ہمارا پسینہ ضرور ایک دن آزادی لے آئے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔